فهل عسيتم ان توليتم ان تفسدوا في الارض وتقطعوا ارحامكم ٢٢
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوٓا۟ أَرْحَامَكُمْ ٢٢
فَهَلْ
عَسَیْتُمْ
اِنْ
تَوَلَّیْتُمْ
اَنْ
تُفْسِدُوْا
فِی
الْاَرْضِ
وَتُقَطِّعُوْۤا
اَرْحَامَكُمْ
۟
3

آیت 22 { فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّـیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ } ”پس تم سے اس کے سوا کچھ متوقع نہیں ہے کہ اگر تم لوگوں کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچائو گے اور اپنے رحمی رشتے کاٹو گے۔“ عام طور پر اس آیت کے دو ترجمے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ترجمے کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر تم لوگ قتال سے منہ موڑو گے تو تم سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم زمین میں فساد مچائو گے اور خونی رشتوں کے تقدس کو پامال کرو گے۔ اوپر آیت کے تحت جو ترجمہ اختیار کیا گیا ہے وہ شیح الہند رح کے ترجمے کے مطابق ہے اور مجھے اسی سے اتفاق ہے۔ شیخ الہند رح کے ترجمے کے اصل الفاظ یہ ہیں : ”پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو خرابی ڈالوملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں“۔ یعنی اس مرحلے پر جبکہ تم لوگوں نے تربیت کے ضروری مراحل ابھی طے نہیں کیے ہیں ‘ ابھی تم آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے گزر کر کندن نہیں بنے ہو اور تزکیہ باطن اور تقویٰ کے مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچے ہو ‘ ایسی حالت میں اگر تم لوگوں کو جزیرہ نمائے عرب میں اقتدار مل جائے تو اس کا نتیجہ ”فساد فی الارض“ کے سوا اور بھلا کیا نکلے گا ! اس آیت کے مخاطب دراصل مدینہ اور اس کے اطراف و جوانب کے وہ لوگ ہیں جو ہجرت کے فوراً بعد ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے ‘ انہوں نے ابتدائی دور کے اہل ایمان کی طرح اس راستے میں کڑی آزمائشوں کا سامنا نہیں کیا تھا اور اس لحاظ سے ان کے کردار و عمل میں ابھی مطلوبہ پختگی اور استقامت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کا عملی ثبوت غزوہ احد کے موقع پر اس وقت سامنے آگیا جب مسلمانوں کی صفوں سے ایک تہائی لوگ اچانک بہانہ بنا کر طے شدہ لائحہ عمل سے لاتعلق ہو کر اپنے گھروں میں جا بیٹھے۔ گویا اس وقت اہل ایمان کے اندر اتنی بڑی تعداد میں ضعیف الاعتقاد مسلمان اور منافقین موجود تھے۔ اس اہم نکتے پر آج ان تمام دینی جماعتوں کو بھی خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی دانست میں غلبہ دین کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اگر یہ جماعتیں اپنے کارکنوں کی مناسب تربیت پر توجہ نہیں دیں گی اور ان کے اندر اخلاص اور للہیت کے پاکیزہ جذبات پروان چڑھانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کریں گی تو انہیں اقتدار ملنے کے نتیجے میں اصلاح کی بجائے الٹا فساد پیدا ہوگا اور ایسی صورت حال دین اور غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے بدنامی کا باعث بنے گی۔ کیونکہ فاسق و فاجر قسم کے لوگوں اور لا دینی قوتوں کے پیدا کردہ فساد کو تو دنیا کسی اور زاویے سے دیکھتی ہے ‘ لیکن اگر کسی دینی جماعت کے اقتدار کی چھتری کے نیچے ”فساد فی الارض“ کی کیفیت پیدا ہوگی تو اس سے جماعت کی شہرت کے ساتھ دین بھی بدنام ہوگا۔