وَیَقُوْلُ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
لَوْلَا
نُزِّلَتْ
سُوْرَةٌ ۚ
فَاِذَاۤ
اُنْزِلَتْ
سُوْرَةٌ
مُّحْكَمَةٌ
وَّذُكِرَ
فِیْهَا
الْقِتَالُ ۙ
رَاَیْتَ
الَّذِیْنَ
فِیْ
قُلُوْبِهِمْ
مَّرَضٌ
یَّنْظُرُوْنَ
اِلَیْكَ
نَظَرَ
الْمَغْشِیِّ
عَلَیْهِ
مِنَ
الْمَوْتِ ؕ
فَاَوْلٰى
لَهُمْ
۟ۚ
3

آیت 20 { وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ } ”اور یہ لوگ جو ایمان کے دعویدار ہیں ‘ کہتے ہیں کہ قتال کے بارے میں کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوئی ؟“ زیر مطالعہ مضمون کے حوالے سے اس سورت کی یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہجرت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے باہر قریش مکہ کے خلاف مہمات بھیجنا شروع کردیں۔ غزوہ بدر سے پہلے ایسی آٹھ مہمات کا بھیجا جانا تاریخ سے ثابت ہے۔ ان میں سے چار مہمات کا شمار تو غزوات میں ہوتا ہے کہ ان میں حضور ﷺ خود بھی تشریف لے گئے تھے۔ ان مہمات کے ذریعے سے آپ ﷺ نے خصوصی طور پر مندرجہ ذیل دو مقاصد حاصل کیے : الف : مکہ کی تجارتی شاہراہ سے ملحقہ علاقوں میں مسلح دستوں کی نقل و حرکت سے قریش مکہ کو آپ ﷺ نے ایک موثر پیغام پہنچا دیا کہ تمہاری شہ رگ life line اب ہر طرح سے ہمارے قبضہ میں ہے اور ہم جب چاہیں تمہاری مکمل معاشی ناکہ بندی کرسکتے ہیں۔ب : جن علاقوں میں آپ ﷺ نے مہمات بھیجیں یا آپ ﷺ خود تشریف لے گئے وہاں کے اکثر قبائل کو آپ ﷺ نے اپنا حلیف بنا لیا ‘ اور جو قبائل آپ ﷺ کے حلیف نہ بھی بنے انہوں نے قریش مکہ اور مسلمانوں کے تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کے معاہدے کرلیے۔ یوں اس پورے علاقے سے قریش مکہ کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہونا شروع ہوگیا اور انہیں جزیرہ نمائے عرب میں صدیوں سے قائم اپنی سیاسی اجارہ داری کی بساط لپٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ حضور ﷺ کی طرف سے مذکورہ مہمات کی منصوبہ بندی ابتدائی اقدام initiative کی نئی حکمت عملی کے تحت کی جا رہی تھی۔ قریش مکہ کی طرف سے آپ ﷺ کے قیام مکہ کے دور کی زیادتیاں اپنی جگہ ‘ لیکن ہجرت کے بعد سے اب تک انہوں نے کوئی بھی جارحانہ اقدام نہیں کیا تھا۔ اس وقت تک جارحانہ اقدام سے متعلق قرآن میں بھی کوئی واضح ہدایت نہیں آئی تھی۔ سورة الحج کی آیت 39 میں جو حکم تھا وہ اذن اور اجازت کے درجے میں تھا ‘ اس حکم میں بھی جارحانہ اقدام کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ بلکہ ایک رائے کے مطابق تو اس وقت تک یہ حکم نازل بھی نہیں ہوا تھا ‘ کیونکہ سورة الحج کو بعض لوگ مدنی سورت مانتے ہیں ‘ اور اگر یہ رائے درست ہو تو پھر یہ بھی امکان ہے کہ سورة الحج واقعتا اس دور کے بعد نازل ہوئی ہو۔ دوسری طرف سورة البقرۃ اس وقت تک مکمل نازل ہوچکی تھی اور اس میں قتال کے بارے میں احکام بھی موجود ہیں ‘ مگر وہ احکام زیادہ سے زیادہ اس نوعیت کے ہیں : { وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ } البقرۃ : 190 کہ جو لوگ آپ سے لڑتے ہیں آپ لوگ ان کے خلاف لڑو ! اس پس منظر میں منافقین کی طرف سے حضور ﷺ کے مذکورہ اقدامات کے خلاف ”لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ“ کے اعتراض کا مفہوم بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ جب قریش کی طرف سے کوئی حریفانہ اقدام نہیں ہو رہا تو ہماری طرف سے ان کی تجارتی شاہراہ پر چھاپے مار کر اور ان کے قافلوں کا تعاقب کر کے خواہ مخواہ جنگی ماحول پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں ‘ اور اگر یہ اقدامات ایسے ہی ضروری تھے تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کوئی واضح حکم کیوں نازل نہیں کیا ؟ اور اگر قرآن میں ایسا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ خود اپنی مرضی سے یہ مہم جوئی کر رہے ہیں۔ { فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْہَا الْقِتَالُ } ”پھر جب ایک محکم سورت نازل کردی گئی اور اس میں قتال کا حکم آگیا“ اس سے مراد زیر مطالعہ سورت یعنی سورة محمد ﷺ ہے اور اس سورت کا دوسرا نام ”سورة القتال“ اسی آیت سے ماخوذ ہے۔ { رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّـنْظُرُوْنَ اِلَـیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ } ”تو اب آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ ہے کہ یہ لوگ آپ ﷺ کی طرف ایسے دیکھیں گے جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہوتی ہے۔“ { فَاَوْلٰی لَہُمْ } ”تو بربادی ہے ان کے لیے !“ دراصل یہ لوگ قتال سے جی چراتے ہیں۔ قبل ازیں اپنے بچائو کے لیے ان کی دلیل یہ تھی کہ اس بارے میں اللہ کا کوئی واضح حکم نازل نہیں ہوا۔ اب جبکہ اللہ نے قتال کے بارے میں واضح حکم نازل کردیا ہے تو ان کی یہ دلیل ختم ہوگئی ہے۔