Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 42:21 hingga 42:23
ام لهم شركاء شرعوا لهم من الدين ما لم ياذن به الله ولولا كلمة الفصل لقضي بينهم وان الظالمين لهم عذاب اليم ٢١ ترى الظالمين مشفقين مما كسبوا وهو واقع بهم والذين امنوا وعملوا الصالحات في روضات الجنات لهم ما يشاءون عند ربهم ذالك هو الفضل الكبير ٢٢ ذالك الذي يبشر الله عباده الذين امنوا وعملوا الصالحات قل لا اسالكم عليه اجرا الا المودة في القربى ومن يقترف حسنة نزد له فيها حسنا ان الله غفور شكور ٢٣
أَمْ لَهُمْ شُرَكَـٰٓؤُا۟ شَرَعُوا۟ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ ٱلْفَصْلِ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ٢١ تَرَى ٱلظَّـٰلِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا۟ وَهُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ۗ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فِى رَوْضَاتِ ٱلْجَنَّاتِ ۖ لَهُم مَّا يَشَآءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ ٢٢ ذَٰلِكَ ٱلَّذِى يُبَشِّرُ ٱللَّهُ عِبَادَهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ ۗ قُل لَّآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةًۭ نَّزِدْ لَهُۥ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ شَكُورٌ ٢٣
اَمْ
لَهُمْ
شُرَكٰٓؤُا
شَرَعُوْا
لَهُمْ
مِّنَ
الدِّیْنِ
مَا
لَمْ
یَاْذَنْ
بِهِ
اللّٰهُ ؕ
وَلَوْلَا
كَلِمَةُ
الْفَصْلِ
لَقُضِیَ
بَیْنَهُمْ ؕ
وَاِنَّ
الظّٰلِمِیْنَ
لَهُمْ
عَذَابٌ
اَلِیْمٌ
۟
تَرَی
الظّٰلِمِیْنَ
مُشْفِقِیْنَ
مِمَّا
كَسَبُوْا
وَهُوَ
وَاقِعٌ
بِهِمْ ؕ
وَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ
فِیْ
رَوْضٰتِ
الْجَنّٰتِ ۚ
لَهُمْ
مَّا
یَشَآءُوْنَ
عِنْدَ
رَبِّهِمْ ؕ
ذٰلِكَ
هُوَ
الْفَضْلُ
الْكَبِیْرُ
۟
ذٰلِكَ
الَّذِیْ
یُبَشِّرُ
اللّٰهُ
عِبَادَهُ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ ؕ
قُلْ
لَّاۤ
اَسْـَٔلُكُمْ
عَلَیْهِ
اَجْرًا
اِلَّا
الْمَوَدَّةَ
فِی
الْقُرْبٰی ؕ
وَمَنْ
یَّقْتَرِفْ
حَسَنَةً
نَّزِدْ
لَهٗ
فِیْهَا
حُسْنًا ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
غَفُوْرٌ
شَكُوْرٌ
۟
3

آیت نمبر 20 تا 23

پچھلے پیراگراف میں یہ کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے جو نظام زندگی اور شریعت تجویز کی تھی وہ وہی ہے جس کے بارے میں نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو تاکید کی گئی تھی۔ وہی بات حضرت محمد ﷺ کی طرف بھی وحی کی گئی۔ اب اس پیرے میں ان سے گرفت کے انداز میں پوچھا جاتا ہے کہ تم بتاؤ تمہاری شریعت اور قانون اور نظام اور نظریہ کا ماخذ کیا ہے ؟ تمہاری شریعت کس نے بنائی ہے۔ یہ تم جس نظام کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہو ، یہ تو شریعتوں کے خلاف ہے۔

ام لھم شرکاء شرعوا ۔۔۔۔ بہ اللہ (42 : 21) ” کیا کچھ لوگ ایسے شریک خدا ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کردیا جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا “۔ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اللہ کی شریعت اور قانون کے متضاد کوئی قانون بنانا چاہے وہ کوئی شخص بھی ہو۔ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ وحدہ کو ہے کیونکہ اللہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس نے اس پوری کائنات کے لئے ایک نظام تجویز کر رکھا ہے اور انسان بھی اس کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس لیے انسان کی زندگی کو ضابطے میں لانے کے لئے ایسا ہی قانون چاہئے جو قانون فطرت ہو۔ اللہ کے قوانین فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اور یہ صرف اس وقت ہوتا ہے کہ جب قانون وہ ذات بنائے جو نظام فطرت کی موجد ہے۔ اللہ کے سوا کوئی اور ذات یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی شخص انسانوں کی قانون سازی پر ، وہ اعتماد نہیں کرسکتا جو اللہ کے قانون پر کرتا ہے۔

اگرچہ یہ وہ حقیقت ہے جو ہدایت کی حد تک واضح ہے لیکن پھر بھی زیادہ لوگ اس کے بارے میں جھگڑتے ہیں یا ان کو اس پر یقین نہیں آتا۔ اور پھر بھی وہ جرات کرتے ہیں کہ اللہ کے قانون کے سوا کسی اور اصول کے مطابق قانون سازی کریں۔ ان کا زعم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لئے بھلائی کر رہے ہیں ، پھر وہ اپنے حالات کو ان قوانین کے مطابق ڈھالتے ہیں جو انہیں نے خود بنائے ہیں۔ گویا وہ اللہ سے زیادہ جانتے ہیں ، زیادہ بہتر فیصلے کرنے والے ہیں ، یا اللہ کے سوا ان کے کوئی اور الٰہ ہیں جو ان کے لئے ایسے قانون بناتے ہیں جس کا اللہ نے اذن نہ دیا ہو۔ اس قسم کے لوگ اللہ کے نزدیک گھاٹا اٹھانے والے ہیں اور اللہ کی ذات کے خلاف جرات کرتے ہیں۔

اللہ نے انسانوں کے لئے ایسا قانون بنایا ہے جو انسان کی فطرت اور اس کائنات کے ناموس فطرت اور انسان کے مزاج کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کے مطابق انسانوں کا باہم تعاون اپنے اعلیٰ درجات تک پہنچ جاتا ہے اور اس کائنات کی دوسری قوتوں کے ساتھ بھی انسان کو تعاون حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے انسان کی پوری زندگی کے بارے میں قانون بنا دیا ہے۔ صرف جزئیات کا دائرہ چھوڑ دیا گیا جن کے بارے میں انسان نئے حالات کے مطابق خود قانون سازی کرسکتا ہے۔ لیکن یہ قانون سازی بھی اللہ کے جاری کردہ اصولی قوانین کے دائرے کے اندر کرسکتا ہے۔ اور اگر کسی معاملے میں انسانوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اس کا فیصلہ بھی اللہ اور رسول ﷺ کے قانون کے مطابق طے کرنا ہوگا۔ کیونکہ اصول اسلامی شریعت میں طے کر دئیے گئے ہیں اور یہ اصول وہ ترازو ہیں جن کے تمام انسانوں نے اپنی آراء کو تولنا ہے۔

یوں قانون سازی کا ماخذ طے ہوجاتا ہے اور حکم اللہ کے لئے مخصوص ہوجاتا ہے جو احکم الحاکمین ہے۔ اس کے سوا کوئی اگر اصول و دستور طے کرے گا وہ اسلامی شریعت سے بغاوت کرے گا۔ اللہ کے دین سے بغاوت کرے گا۔ اور اس وصیت اور تاکید کے خلاف چلے گا جو حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو کی گئی۔ اور اب حضرت محمد ﷺ کے لئے وہی شریعت نافذ کردی گئی۔

ولو لا کلمۃ الفصل لقضی بینھم (42 : 21) ” اگر فیصلے کی بات طے نہ ہوگئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا “ ۔ اللہ نے فیصلہ کی بات یوں کردی ہے کہ لوگوں کو فیصلے کے دن تک مہلت دی جائے گی۔ اگر یہ بات طے نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ان کا فیصلہ کردیتا۔ اور اللہ کی شریعت کے مخالفین کو یہاں ہی پکڑ لیا جاتا۔ ان کا قضیہ جلدی ہی چکا دیا جاتا۔ لیکن اللہ نے مہلت دے دی ہے۔

وان الظلمین لھم عذاب الیم (42 : 21) ” اور ان ظالموں کے لئے یقیناً دردناک عذاب ہے “۔ یہ عذاب ان کے طلم کی وجہ سے ان کا منظر ہے اور اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو شخص اللہ کی شریعت کی مخالفت کرے۔ اور اللہ کے سوا دوسروں کی شریعت کی حمایت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ظالموں کو اب قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ وہاں ڈرے ہوئے ہیں ، سہمے ہوئے ہیں۔ عذاب جہنم ان کے سامنے ہے۔ اس سے قبل تو وہ اس سے نہ ڈرتے تھے اور نہ خوف کھاتے تھے بلکہ مذاق اڑاتے تھے۔

تری الظلمین مشفقین مما کسبوا وھو واقع بھم (42 : 22) ” تم دیکھو گے کہ یہ ظالم اس وقت اپنے کئے کے انجام سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر آکر رہے گا “۔ قرآن کا انداز تعبیر بڑا عجیب ہے کہ یہ لوگ وہاں ” اپنی کمائی “ سے ڈر رہے ہوں گے۔ ان کی کمائی گویا ایک بلا ہوگی جس سے وہ ڈر رہے ہوں گے اور یہ بلا انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے کمائی اور دنیا سے وہ اپنے اس کارنامے ( غیر اسلامی قانون سازی ) پر بہت خوش تھے لیکن آج وہ اس سے خوفزدہ ہیں لیکن وھو واقع بھم (42 : 22) ” اور وہ ان پر واقع ہونے والا ہے “۔

اور اس منظر کی دوسری جھلک مومنین کے بارے میں ہے ، جو اس دن سے ڈرتے تھے لیکن آج وہ امن و عافیت سے ہیں اور بہت ہی خوشحال ہیں :

والذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ الفضل الکبیر (42 : 22) ذلک الذی یبشر ۔۔۔۔۔ وعملوا الصلحت (42 : 23) ” بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے ، جو کچھ بھی وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے ، یہی بڑا فضل ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کئے “۔

قرآن کی تعبیر بھی نہایت ہی خوش کن ، نرم اور دھیمے انداز کی ہے۔ روضات الجنت جنتوں کے گلستان ، کئی جنتیں اور کئی گلستان۔ ” جو کچھ وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے “۔ بلا حدود وقیود۔ ” یہی بڑا فضل ہے “۔ ” یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے “۔ یہ حاضر خوشخبری اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے ” ۔ یہ حاضر خوشخبری ہے اور یہ سابقہ خوشخبری کے لئے مصداق ہے۔ خوشخبری کی فضا سب سے زیادہ فرحت بخش ہوتی ہے۔ جب کسی کو نعمت حاصل ہو تو خوشخبری دینے سے اس کا احساس اور تیز ہوجاتا ہے۔

نعمتوں کے اس نرم و نازک اور لطف و کرم کے اس بھرپور منظر کے دکھانے پر نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ جو ہدایت میں پیش کر رہا ہوں اور جس سے تمہیں یہ نعمتیں ملیں گی اور جہنم سے دور ہوجاؤ گے یہ میں اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ تم میرے رشتہ دار ہو اور مجھے تم سے محبت ہے میرے لیے یہی اجر کافی ہے۔

قل لا اسئلکم ۔۔۔۔۔۔ غفور شکور (42 : 23) ” اے نبی ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم لوگوں سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ البتہ قرابت محبت کی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ تم جہنم سے بچ جاؤ۔ جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لئے بھلائی میں خوبی کا اضافہ کردیں گے۔ بیشک اللہ بڑا درگزر کرے والا اور قدر دان ہے “۔

جس مفہوم کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا بلکہ قرابت داری کی محبت مجھے اس کام پر مجبور کر رہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری قریش کی ہر شاخ سے تھی اور آپ یہ کوشش فرماتے تھے کہ آپ کے رشتہ دار ہدایت پر آجائیں۔ آپ اس قرابت داری کی وجہ سے چاہتے تھے کہ یہ بھلائی ان کو مل جائے اور یہی وافر اجر ہے آپ کے لئے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ انداز تعبیر آیا ہے اسے پڑھنے کے بعد میرے خیال میں یہی معنی واضح ہے۔ حضرت ابن عباس سے ایک تفسیر بھی مروی ہے ۔ یہاں میں اسے اس لیے نقل کرتا ہوں کہ وہ صحیح بخاری میں وارد ہے۔ بخاری نے روایت کی ہے۔ محمد ابن بشار سے انہوں نے محمد ابن جعفر سے انہوں نے شعبہ ابن عبد المالک ابن میسرہ سے انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ انہوں نے آیت المودۃ فی القربی (42 : 23) کے بارے میں پوچھا تو سعید ابن جبیر نے کہا ” آل محمد کے رشتہ دار مراد ہیں “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا تم نے جلدی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قریش کی کوئی شاخ نہ تھی کہ نبی ﷺ کی اس میں رشتہ داری نہ ہو “۔ اس کے بعد انہوں نے کہا معنی یہ ہے ” الا یہ کہ میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت داری ہے اس کا تعلق رکھو “۔

اس حدیث کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ تم میری قرابت داری کا لحاظ رکھتے ہوئے ، مجھے اذیت دینے سے باز آجاؤ۔ اور میں جو کچھ کہتا ہوں سنو اور نرم رویہ اختیار کرو۔ یہی کافی اجر ہوگا۔ بس یہی اجر میں تم سے چاہتا ہوں ، اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔

حضرت ابن عباس ؓ کی تاویل ، سعید ابن جبیر کی تاویل سے زیادہ قریب الفہم ہے۔ لیکن میں نے جو مفہوم اوپر بیان کیا ہے وہ زیادہ قریب اور زیادہ خوبصورت ہے۔ واللہ اعلم۔

بہرحال مفہوم جو بھی ہو مذکورہ باغات اور خوشخبری کے مناظر کے بعد اللہ فرماتا ہے کہ پیغمبر اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتے اور یہ بات تو بہت ہی بعید ہے کہ جن کو ہدایت کی جارہی ہے وہ اس پر ان سے اجر طلب کریں ، لیکن یہ تو اللہ کے فضل و کرم ہیں کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ تجارتی حساب و کتاب نہیں کرتا ، نہ منصفانہ حساب کرتا ہے ۔ اللہ کا حساب مہربانی اور فضل والا ہے۔

ومن یقترف حسنۃ نزدلہ فیھا حسنا (42 : 23) ” جو بھلائی کمائے گا ہم اس کے لئے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کردیں گے “۔ صرف یہ نہیں کہ ہدایت پر کوئی اجر نہیں لیا جاتا بلکہ مزید انعامات بھی دئیے جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد مغفرت کی جاتی ہے اگر کوئی غلطی ہو اور مزید یہ کہ اللہ کی طرف سے قدر کی جاتی ہے۔

ان اللہ غفور شکور (42 : 23) ” جو بھلائی کمائے گا ہم اس کے لئے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کردیں گے “۔ صرف یہ نہیں کہ ہدایت پر کوئی اجر نہیں لیا جاتا بلکہ مزید انعامات بھی دئیے جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد مغفرت کی جاتی ہے اگر کوئی غلطی ہو اور مزید یہ کہ اللہ کی طرف سے قدر کی جاتی ہے۔

ان اللہ غفور شکور (42 : 23) ” بیشک اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور قدر دان ہے “۔ اللہ معاف بھی کرتا ہے ، پھر خود شکریہ بھی ادا کرتا ہے۔ کس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اپنے بندوں کا کہ وہ راہ راست پر آئے ، حالانکہ راہ راست پر آنے کی توفیق بھی اسی نے دی۔ پھر مزید یہ کہ ان کی صفات میں اضافہ کرتا ہے ، برائی کو صاف کرتا ہے اور اس کے بعد قدر دانی بھی کرتا ہے ، کیا ہی مہربانیاں ہیں ! انسان کے لئے تو ایسا سلوک کرنا ممکن نہیں ۔ صرف اللہ کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے اور توفیق قلب کی جاسکتی ہے۔

اب روئے سخن پھر وحی الٰہی کی طرف !