Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 40:67 hingga 40:68
هُوَ
الَّذِیْ
خَلَقَكُمْ
مِّنْ
تُرَابٍ
ثُمَّ
مِنْ
نُّطْفَةٍ
ثُمَّ
مِنْ
عَلَقَةٍ
ثُمَّ
یُخْرِجُكُمْ
طِفْلًا
ثُمَّ
لِتَبْلُغُوْۤا
اَشُدَّكُمْ
ثُمَّ
لِتَكُوْنُوْا
شُیُوْخًا ۚ
وَمِنْكُمْ
مَّنْ
یُّتَوَفّٰی
مِنْ
قَبْلُ
وَلِتَبْلُغُوْۤا
اَجَلًا
مُّسَمًّی
وَّلَعَلَّكُمْ
تَعْقِلُوْنَ
۟
هُوَ
الَّذِیْ
یُحْیٖ
وَیُمِیْتُ ۚ
فَاِذَا
قَضٰۤی
اَمْرًا
فَاِنَّمَا
یَقُوْلُ
لَهٗ
كُنْ
فَیَكُوْنُ
۟۠
3

آیت نمبر 67 تا 68

اس کرۂ ارض پر انسانی پیدائش کا ارداک انسانی علم نہیں کرسکتا ، کیونکہ انسان اس وقت نہ تھا جب اسے پیدا کیا گیا تھا ، انسانی پیدائش کے تسلسل میں بعض امور ایسے ہیں جن کا مشاہدہ انسان کرتا ہے لیکن یہ انسانی مشاہدہ اپنی موجودہ ترقی یافتہ شکل میں زمانہ حال میں سامنے آیا ہے ، نزول قرآن کے صدیوں بعد۔

پہلی بات یہ ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور یہ واقعہ اس وقت ہوا جب انسان نہ تھا۔ لیکن معلوم ہوگیا کہ اس کرۂ ارض پر مٹی ہی حیات کی بنیاد ہے۔ اسی سے انسان کو بنایا گیا ہے اور اسے زندگی دی گئی ہے۔ یہ بات اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا کہ یہ معجزہ کس طرح ظہور میں آیا زندگی اور زمین کی تاریخ میں یہ عظیم واقعہ کب اور کس طرح وجود میں آیا۔ رہا نسلوں کا چلنا تو اس کا نظام یوں بنایا گیا کہ مرد کا خلیہ یعنی نطفہ جب عورت کے انڈے سے ملتا ہے اور یہ دونوں آپس میں متحد ہوجاتے ہیں اور رحم میں خون کے ایک لوتھڑے کی شکل میں ٹک جاتے ہیں تو جنین اپنے مراحل طے کرتا ہے اور اپنے آخری مرحلے میں بچہ نمودار ہوتا ہے ۔ پیدا ہونے سے قبل بچے میں بہت بڑے بڑے انقلابات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ابتدائی خلیے کو غور سے دیکھا جائے تو اس کی زندگی بچے کی زندگی سے زیادہ طویل ہے یعنی ولادت سے لے کر موت تک کے عرصہ سے ، سیاق کلام میں قرآن مجید نے یہاں صرف اس کی بعض ممتاز صفات و مراحل کا ذکر کیا ہے۔ یعنی بچپنے کا مرحلہ۔ پھر سن رشد تک پہنچنا یعنی تیس سال کی عمر تک پھر بڑھاپا۔ یہ وہ

مراحل ہیں جنہیں طے کرکے انسان اپنے کمزور ، آغازوانجام کے درمیان اپنی پوری قوت تک پہنچتا ہے۔

ومنکم من یتوفی من قبل (40: 67) ' تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے “۔ اور وہ یہ پورے مراحل طے نہیں کرتا یا بعض مراحل اس سے چھوٹ جاتے ہیں اور وہ فوت ہوجاتا ہے۔

ولتبلغوآ اجلا مسمی (40: 67) ” یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ “۔ یہ وقت مقرر ، طے شدہ اور معلوم ہے۔ اس میں کوئی تقدیم اور تاخیر نہیں ہوتی۔

ولعلکم تعقلون (40: 67) ” اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو “۔ جنین کا سفر طے کرنا ، پھر بچے کا سفر طے کرنا ، پھر ان کی شکل و صورت کا حسن اور ان کی طبیعی نشوونما کے صحیح صحیح اندازے اور اطوار میں سوچنے کا بہت بڑا سامان ہے۔

جنین کا سفر تو نہایت ہی حیرت انگیز سفر ہے۔ علوم طبیہ کی ترقی کے بعد تو اس کے بارے میں ہم نے حیرت انگیز معلومات حاصل کرلی ہیں۔ علوم جنین ایک مستقل شعبہ ہے لیکن قرآن نے جس انداز سے آج سے چودہ سو سال قبل اس کے بعض مراحل کی طرف جس ٹھیک ٹھیک اندازے سے اشارہ کیا ہے ، یہ فکر ونظر کے لیے دامن گیر ہے۔ انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان مراحل سے غافل ہوکر گزر جائے اور ان پر گہرا غور وفکر نہ کرے۔ جنین کا سفر اور بچے کا سفر انسانی احساس پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور انسانی دل کو خوب جھنجھوڑتے ہیں۔ چاہے عقل ورشد کے جس مرحلے میں بھی وہ ہو۔ ہر نسل انسانی ، اپنی معلومات کے حوالے سے اس سے متاثر ہوتی ہے ، اس لیے قرآن نے انسانی نسلوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے اس لیے کہ اس سے انسان متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ آزاد ہے ، لبیک کہے یا نہ کہے۔ اس بحث کے بعد زندہ کرنے اور مارنے اور تخلیق اور نشوونما کے بارے میں ایک سبق آموز تبصرہ :

ھوالذی۔۔۔۔ کن فیکون (40: 68) ” وہی ہے زندگی اور موت دینے والا۔ وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہوجائے اور وہ ہوجاتی ہے “۔ قرآن میں آیات موت وحیات کا بہت ذکر ہوا ہے۔ کیونکہ موت وحیات کا مضمون انسانی شخصیت کو گہرے طور پر متاثر کرتا ہے۔ یہ نہایت ہی ممتاز اور باربار دہرائے جانے والے واقعات ہیں اور انسانی حس ان کو بہت ہی قریب سے دیکھتی ہے۔ بادی النظر میں زندہ کرنے اور مارنے سے جو بات انسان کی سمجھ میں آتی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو حیات وممات کا مفہوم اس سے کہیں گہرا ہے۔ حیات کی بھی کئی اقسام ہیں ، موت کی بھی کئی اقسام ہیں۔ زمین کو ہم مردہ دیکھتے ہیں۔ پھر زمین ہی کو ہم زندہ اور سرسبز دیکھتے ہیں۔ جب مردہ ہو تو درختوں کے پتے نہیں ہوتے ، شاخیں خشک نظر آتی ہیں ، ایک تو یہ موسم ہوتا ہے ، اور جب یہ زندہ ہوتے ہیں تو یہی مردہ شاخیں اور ٹہنیاں سرسبز اور شاداب ہوکر لہلہاتی ہیں۔ ان شاخوں کا انگ انگ پھوٹ جاتا ہے اور پھول اور پتے نکل آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ زندگی ان شاخوں سے ابلی پڑتی ہے۔ ایک انڈے کو دیکھو ، پھر بچے کو دیکھو ، بیج کو دیکھو اور اگنے والے پودے کو دیکھو ، اور پھر الٹے سفر کو دیکھو کہ یہی زندگی موت میں بدل جاتی ہے اور بچھے ہوئے کھیت سامنے آتے ہیں۔ یہ سب حالات دل اور دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور بمو جب ” فکر ہر کس بقدر ہمت اوست “ ہر شخص کا تاثر ہوتا ہے۔ آخر میں موت وحیات سے آگے ، اہم سوال کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی ؟ بس اللہ کا ارادہ ہوا ، کن کا حکم ہوا اور سب کچھ ہوگیا یا جو چاہا ہوگیا۔ یہ کائنات ہوتی چلی گئی اور تسلسل قائم ہوتا چلا گیا۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔

حیات وممات کے اس منظر کے بعد اور انشاء و تخلیق کے کن فیکون کے بعد ، اللہ کی نشانیوں اور مہربانیوں میں جدل وجدال اور بحث و تکرار لاحاصل اور بہت عجیب و غریب ہے اور رسولوں کے پیغام اور دعوت کی تکذیب اس سے بھی عجیب تر ہے۔ اب ہوجاؤ خبردار ! ایک خوفناک منظر تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ خبردار ! یہ قیامت ہے اور تم نے اس منظر کو دیکھنا ہے ، ذرا دیکھنے سے پہلے ہی دیکھ لو !