وجعلنا ذريته هم الباقين ٧٧
وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُۥ هُمُ ٱلْبَاقِينَ ٧٧
وَجَعَلْنَا
ذُرِّیَّتَهٗ
هُمُ
الْبٰقِیْنَ
۟ؗۖ
3

آیت 77{ وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّـتَہٗ ہُمُ الْبٰقِیْنَ } ”اور ہم نے اس کی اولاد کو ہی باقی رہنے والابنایا۔“ یہ آیت فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس میں اسلوبِ حصر کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ صرف نوح علیہ السلام ہی کی اولاد کو ہم نے باقی رہنے والا بنایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیلاب کے بعد دنیا میں بنی نوع انسان کی نسل صرف حضرت نوح کے بیٹوں سے ہی چلی تھی۔ آپ علیہ السلام کی قوم کے رویے کے حوالے سے قرآن میں جا بجا جو اشارے ملتے ہیں اس سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں سے شاید کوئی بھی آپ علیہ السلام پر ایمان نہیں لایا تھا۔ بلکہ سورة ہود کے الفاظ : { وَمَآاٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلاَّ قَلِیْلٌ۔ } سے تو ایسے ہی لگتا ہے جیسے کشتی میں گنتی کے چند افراد تھے جن میں آپ علیہ السلام خود تھے ‘ آپ علیہ السلام کے تین بیٹے اور ان کے اہل و عیال تھے یا ممکن ہے آپ علیہ السلام کی کوئی بیوی بھی آپ علیہ السلام کے ہمراہ ہو۔ اس کے علاوہ کچھ خادمین اور ملازمین ہوں گے اور بس۔ آپ علیہ السلام کی ایک بیوی اور ایک بیٹا تو غرق ہونے والوں میں شامل تھے۔ اگر کوئی ُ خدام ّوغیرہ تھے بھی تو ان کی نسل آگے چلنے کا اہتمام نہیں ہوا ہوگا۔ چناچہ اس کے بعد نسل انسانی آپ علیہ السلام کے تین بیٹوں سام ‘ حام اور یافث سے ہی چلی۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تقریباً دو ہزار برس کے عرصے میں انسانی آبادی دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہے۔ ورنہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک انسانی آبادی صرف اسی علاقے تک محدود تھی جو سب کی سب سیلاب کی وجہ سے ختم ہوگئی اور صرف وہی چند نفوس زندہ بچے جو آپ علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں یہ مفہوم بہت واضح ہے کہ سیلاب کے بعد نسل انسانی صرف آپ علیہ السلام کے بیٹوں ذُرِّیَّتَہٗ سے ہی آگے چلی۔ کشتی میں اگر آپ علیہ السلام کے خاندان کے علاوہ کچھ اور لوگ موجود تھے بھی تو ان میں سے کسی کی نسل آگے نہ چل سکی۔