یٰنِسَآءَ
النَّبِیِّ
مَنْ
یَّاْتِ
مِنْكُنَّ
بِفَاحِشَةٍ
مُّبَیِّنَةٍ
یُّضٰعَفْ
لَهَا
الْعَذَابُ
ضِعْفَیْنِ ؕ
وَكَانَ
ذٰلِكَ
عَلَی
اللّٰهِ
یَسِیْرًا
۟
3

آیت 30 { یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ } ”اے نبی ﷺ کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی بالفرض کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے گی اسے دوگنا عذاب دیاجائے گا۔“ { وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا } ”اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔“ یہ نہ سمجھنا کہ آپ نبی ﷺ کی بیویاں ہو اور نبی ﷺ آپ کو بچا لیں گے۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا قانون بہت واضح ہے کہ اگر کسی شخص کے اپنے اعمال درست نہ ہوں تو آخرت میں اسے کوئی دوسرا نہیں بچا سکے گا۔ اس حوالے سے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا ذکر قرآن میں کثرت سے آیا ہے۔ سورة التحریم میں حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے ساتھ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کا ذکر بھی ہے کہ وہ دونوں انبیاء کی بیویاں ہوتے ہوئے بھی عذاب سے نہ بچ سکیں۔ حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ جب یہ آیت { وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ الشعراء نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کے تمام خاص و عام کو بلا کر جمع فرمایا اور ایک ایک قبیلے کا نام لے کر اس کے افراد کو مخاطب فرمایا : یا بنی کعب بن لوی !… یا بنی مُرۃ بن کعب !… یا بنی عبد شمس !… یا بنی عبد مناف !… یا بنی ہاشم !… یا بنی عبدالمطلب ! اور ہر ایک کو یہی فرمایا : اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ”اپنے آپ کو آگ سے بچائو !“ آخر میں آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء رض کو مخاطب کرتے ہوئے بھی یہی فرمایا : یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ، فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَـکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ”اے محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ ! اپنے آپ کو آگ سے بچائو ! اس لیے کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی گرفت سے بچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔“ صحیح مسلم ‘ ح : 204 دوسری روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اپنے خاندان کے افراد کو بھی نام لے لے کر مخاطب فرمایا : یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! سَلِینِیْ بِمَا شِئْتِ ، لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا صحیح مسلم ‘ ح : 206 ”اے میرے چچا عباس بن عبدالمطلب ! میں اللہ کے محاسبے کے وقت آپ کے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں اللہ کے محاسبے کے وقت آپ کے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ ! مجھ سے جو چاہو مانگ لو ‘ لیکن میں اللہ کے محاسبے کے وقت تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔“ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آیت قرآنی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ ‘ معاذ اللہ ‘ نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات سے کسی بےحیائی کا اندیشہ تھا ‘ بلکہ اس سے مقصود آپ ﷺ کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں ‘ اس لیے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔