Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 31:23 hingga 31:24
ومن كفر فلا يحزنك كفره الينا مرجعهم فننبيهم بما عملوا ان الله عليم بذات الصدور ٢٣ نمتعهم قليلا ثم نضطرهم الى عذاب غليظ ٢٤
وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُۥٓ ۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوٓا۟ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ٢٣ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًۭا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍۢ ٢٤
وَمَنْ
كَفَرَ
فَلَا
یَحْزُنْكَ
كُفْرُهٗ ؕ
اِلَیْنَا
مَرْجِعُهُمْ
فَنُنَبِّئُهُمْ
بِمَا
عَمِلُوْا ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
عَلِیْمٌۢ
بِذَاتِ
الصُّدُوْرِ
۟
نُمَتِّعُهُمْ
قَلِیْلًا
ثُمَّ
نَضْطَرُّهُمْ
اِلٰی
عَذَابٍ
غَلِیْظٍ
۟
3

ومن کفر فلا ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (23 – 24) ” ۔ “۔

وہ تو تھا انجام ان لوگوں کا جو اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے سپرد کردیں اور یہ ہے انجام ان لوگوں کا جو کفر اختیار ہی نہ دیں گے۔

ومن کفر فلا یحزنک کفرہ (31: 23) ” اور جو کفر کرتا ہے ، اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے “۔ ان کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ آپ جو سرور کونین ہیں ان کیلئے پریشان ہوں ۔ یہ تو بہت ہی حقیر و صغیر ہیں اور آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی زیادہ حقارت آمیز ہونے والا ہے۔ یہ اللہ کے قبضے میں ہیں۔ یہ اللہ سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ اللہ ان کو ان کے اعمال کے بدلے پکڑے گا ، وہ ہر شخص کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے ، خواہ ظاہر ہو یا خفیہ ہو ، یا اس کے سینے میں ہو یا اس کی نیت میں ہو۔

الینا مرجعھم ۔۔۔۔۔ بذات الصدور (31: 23) ” انہیں پلٹ کر آنا تو ہمارے ہی طرف ہے۔ پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ یقیناً اللہ سینوں میں چھپے ہوئے راز جانتا ہے “۔ زندگی کا سازوسامان جو انسان کو فریب دیتا ہے ایک مختصر عرصے کے لیے ہے اور نہایت ہی کم قیمت ہے۔

نمتعھم قلیلا ۔۔۔۔۔ عذاب غلیظ (31: 24) ” ہم انہیں تھوڑی مدت اس دنیا میں مزے کرنے کا موقعہ دے رہے ہیں ، پھر ان کو بےبس کرکے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے “۔ تھوڑے دن تو مزے کریں گے ، پھر خوفناک عذاب سے دو چار ہوں گے اور انہیں اس عذاب کی طرف دھکیل کرلے جایا جائے گا۔ عذاب کی تعریف میں غلیظ کا لفظ آیا ہے اور اس کے ذریعے عذاب کو مجسم کردیا گیا ہے۔ اور اضطرار کے معنی میں کفار کی بےبسی کا اظہار کیا گیا یعنی وہ اس عذاب سے اپنے آپ کو بچانہ سکیں گی اور نہ لیت و لعل کرسکیں گے۔ یہ تو تھا کافروں کا حال لیکن جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلے اور اپنے رخ کو اللہ کے سپرد کر دے اور سنجیدہ اور مطمئن ہوکر رب تعالیٰ کی طرف چل پڑے وہ نہایت ہی اعلیٰ مقام پر ہوگا بمقابلہ کافر کے۔

اب ان کو خود ان کی فطرت کی منطقی دلیل سے دو چار کردیا جاتا ہے ، جب ان کے سامنے یہ عظیم کائنات رکھ دی جاتی ہے اور سوال یہ ہے کہ آیا اس کا کوئی خالق ہے یا نہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہے کیونکہ ذات باری تو انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس کے سوا اس کائنات کی اور کوئی تعبیر ہی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ لوگ فطرت کی اس سادہ منطق سے بھی کجی اختیار کرتے ہیں اور اسے بھی بھلا دیتے ہیں حالانکہ اس سے اور کوئی قوی اور درست دلیل نہیں ہے۔