ولو انهم امنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون ١٠٣
وَلَوْ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَمَثُوبَةٌۭ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ خَيْرٌۭ ۖ لَّوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ١٠٣
وَلَوْ
اَنَّهُمْ
اٰمَنُوْا
وَاتَّقَوْا
لَمَثُوْبَةٌ
مِّنْ
عِنْدِ
اللّٰهِ
خَیْرٌ ؕ
لَوْ
كَانُوْا
یَعْلَمُوْنَ
۟۠
3

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (103) ” اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا ، وہ ان کے لئے زیادہ بہتر تھا ، کاش انہیں خبر ہوتی ! “

یہ بات تو ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو بابل میں ہاروت وماروت سے جادو سیکھتے تھے ، ان پر بھی صادق آتی ہے جو ان باتوں کی پیروی کرتے تھے جنہیں شیاطین حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کا نام لے کر پیش کرتے تھے اور یہ لوگ یہودی تھے جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تو پس پشت ڈال دیا اور ان خرافات اور مذمومات کی پابندی اپنے اوپر لازم کردی۔

یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جادو کی حقیقت پر بھی قدرے روشنی ڈال دی جائے جس کے پیچھے یہ یہودی پڑگئے تھے اور جس کے ذریعے یہ لوگ میاں اور بیوی میں ناچاقی پیدا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے انہوں نے کتاب الٰہی تک کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

یہ بات ہمارے دور میں بھی بارہا مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ بعض لوگ اپنے اندر ایسی معجزانہ خصائص رکھتے ہیں کہ سائنس آج تک ان کی کوئی علمی توجیہ نہیں کرسکتی ۔ ایسے عجائبات کے لئے لوگوں نے ، مختلف نام تو تجویز کر رکھے ہیں ، تاہم ان کی حقیقت کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا۔ اور ابھی تک وہ عجوبہ ہی ہیں ۔ مثلاً ٹیلی پیتھی یعنی دور سے خیالات کا اخذ کرنا ، اس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک ایسے فاصلے سے ، جہاں تک نہ اس کی نظر پہنچتی ہے اور نہ آواز ، ایک آدمی کو بلاتا ہے اور اس سے خیالات اخذ کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان طویل فاصلے حائل نہیں ہوتے ۔

پھر مقناطیسی تنویم کا عمل بھی قابل غور ہے ۔ یہ کیوں کر ممکن ہوجاتا ہے۔ ایک ارادہ دوسرے پر ناقابل ادراک طریقے سے استیلاء حاصل کرلیتا ہے اور ایک فکردوسری فکر کے ساتھ کس طرح مطابقت اختیار کرلیتی ہے کہ ایک دوسرے کی طرف خیالات منتقل کرتی چلی جاتی ہے اور دوسری اس سے اخذ کرتی چلی جاتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا متاثرہ شخص ایک کھلی کتاب پڑھ رہا ہے۔ آج تک سائنس اس سلسلے میں جو کچھ کرسکی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعتراف کرکے ان کے لئے کچھ نام تجویز کرلئے ہیں لیکن سائنس آج تک اس بات کا جواب نہیں سے سکی کہ ان کی حقیقت کیا ہے ؟ نیز سائنس کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کہ یہ عمل کیسے مکمل ہوتا ہے ؟

ان حقائق کے علاوہ بھی بعض ایسی چیزیں ہیں جن کے تسلیم کرنے میں سائنس کو ابھی تامل ہے ۔ یا تو اس لئے کہ ابھی تک ان کے بارے میں اس قدر مشاہدات جمع نہیں ہوئے جن کے ذریعے وہ اس میدان میں کوئی تجربہ کرسکے ۔ خود سچے خوابوں کو معاملہ بھی بڑا عجیب ہے ۔ فرائڈ جو ہر روحانی قوت کا بڑی شدت سے انکار کرتا ہے ، وہ بھی ان کا انکار نہیں کرسکا ۔ خواب کے ذریعے ہمیں مستقبل کی تاریکیوں میں ہونے والے واقعات کا اشارہ کیسے مل جاتا ہے ؟ اور پھر طویل عرصہ نہیں گزرتا کہ وہ اشارہ واقعات کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ یہی معاملہ انسان کے ان خفیہ احساسات کا ہے ، جن کا ابھی تک وہ کوئی نام بھی تجویز نہیں کرسکا ۔ بعض اوقات انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ؟ کوئی آنے والا ہے ؟ اور اس کے بعد یہ متوقع امر کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔

لہٰذا یہ محض ہٹ دھرمی ہے کہ انسان محض بےتکلفی میں ان نامعلوم حقائق کا انکار کردے ، صرف اس لئے کہ سائنس کی رسائی ابھی ایسے وسائل تک نہیں ہوسکی جن کے ذریعے وہ اس میدان میں کوئی تجربہ کرسکے ۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان دنیا کے تمام خرافات کو بےچون وچرامانتا چلاجائے ، ہر فسانے پر ایمان لاتا چلا جائے ، بلکہ صحیح اور معتدل روش یہ ہے کہ ایسے نامعلوم حقائق کے بارے میں انسان ایک لچک دار اور معتدل موقف اختیار کرے ۔ نہ سو فیصدی ان کا انکار کرنا درست ہے اور نہ ہی بےچون وچرا تسلیم کرلینا معقول ہے ۔ اس درمیانی روش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کے علم ، ادراک کے جو ابتدائی ذرائع اس وقت حاصل ہیں جب ان میں انسان مزید ترقی کرے گا تو اس کے لئے ایسے حقائق کا معلوم کرلینا ممکن ہوجائے گا ۔ لہٰذا انسان کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ اس کا علم محدود ہے ۔ اور بعض حقائق ایسے بھی ہیں جو اس کے حیطہ ادراک سے باہر ہیں ، اسے اپنی حدود کو پہچاننا چاہئے اور نامعلوم حقائق کا بھی کچھ لحاظ رکھنا چاہئے۔

جادوگری کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ شیاطین کی جانب سے جو القاء بدکردار لوگوں کو ہوتا ہے ، وہ بھی فوق الادراک امور میں سے ہے۔ اس کی متعدد شکلوں میں سے ایک یہ ہے کہ جادوگر انسانوں کے حواس اور خیالات پر اثر انداز ہونے کی قدرت رکھتا ہے ۔ کبھی اس کا اثر ٹھوس چیزوں اور اجسام پر بھی ہوتا ہے ۔ البتہ قرآن کریم میں فرعون کے جادوگروں کی جس سحرکاری کا ذکر ہے ، وہ محض نظربندی اور نظر فریبی ہی تھی ، دراصل اس سے کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی تھی۔

یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سَحرِھِم اِنَّھَا تَسعٰی ” ان کی جادوگری کی وجہ سے ، اس کو ایسامعلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ چل رہی ہیں ۔ “ ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنی جادوگری کے ایسے اثرات استعمال کرکے میاں بیوی اور دوست اور دوست کے تفریق ڈالتے ہوں ، کیونکہ جب انسان کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے ، اس انفعال کی مطابقت میں اس سے بعض حرکات سرزد ہوجاتی ہیں ، لیکن جیسا کہ کہا گیا وسائل واسباب اور ان کے تنائج اور مسببات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کام نہیں کرسکتا ۔

قدرتی طور پر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دوفرشتے ہاروت وماروت کون تھے ؟ اور تاریخ کے کس دور میں وہ بابل میں گزرے ہیں ؟ اس سوال کی تشریح قرآن نے اس ضروری نہیں سمجھی کہ ان فرشتوں کا قصہ یہودیوں کے درمیان عام طور پر معروف تھا ، اور جب قرآن کریم نے انہیں یہ قصہ سنایا تو انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کئی ایسے واقعات جو اس وقت قرآن کریم کے مخاطبین کے ہاں مشہور ومعروف تھے ۔ انہیں قرآن کریم نے اجمال کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم کا مقصد صرف اشارے ہی سے پورا ہوجاتا تھا اور قصہ گوئی قرآن کے پیش نظر تھی ہی نہیں ۔

فی ظلال القرآن میں ، ہم وہ تمام تفصیلات اور رطب ویابس روایات درج نہیں کرنا چاہتے جو ان فرشتوں کے بارے میں مشہور ہیں ۔ کیونکہ تفاسیر میں ان کے بارے میں مواد پایا جاتا ہے ، یا جو روایات معقول ہیں ان میں کوئی روایت ثقہ نہیں ہے۔

انسانیت اپنی طویل ترین تاریخ میں متعدد آزمائشوں اور ابتلاؤں سے دوچارہوتی رہی ہے۔ یہ آزمائشیں اور ابتلائیں ، مختلف ادوار میں انسانیت کی ذہنی سطح اور اس وقت کے ماحول کی مناسبت سے مختلف نوعیت اختیار کرتی رہی ہیں ۔ اب یہ آزمائش اگر کسی وقت دو فرشتوں کی صورت میں یا دو فرشتہ سیرت انسانوں کی صورت میں آئی ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز اور انوکھی بات نہیں ہے۔ کیونکہ انسانیت پر جو آزمائشیں آتی رہی ہیں وہ کئی قسم کی عجیب و غریب اور خارق العادۃ بھی ہوتی رہی ہیں ، بالخصوص اس دور میں جبکہ انسانیت فکر وادراک کی دنیا میں ترقی کی ابتدائی منازل طے کررہی تھی اور وہم وجہالت کی تاریک رات میں سماوی روشنی کے پیچھے چل رہی تھی۔

نیز ان آیات میں جو محکم اور واضح ہدایات دی گئی ہیں ہمارے لئے وہی کافی ہیں ۔ اور اگر کوئی چیز متشابہ اور ناقابل فہم ہے تو اس کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بالخصوص اب جبکہ ہم اس ماحول سے بہت دور جانکلے ہیں ۔ جہاں ایسے واقعات پیش آئے تھے ۔ بس ہمارے لئے یہی جان لینا کافی ہے کہ بنی اسرائیل جادوگری اور دوسری موہوم اور لایعنی باتوں کے پیچھے پڑ کر گمراہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سچی اور یقینی ہدایات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور یہ کہ عمل سحر ایک کفریہ عمل ہے ۔ اور جو لوگ ایسے اعمال کریں ان کے لئے دار آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا ۔ اور وہ ان تمام بھلائیوں اور خیرات سے محروم ہوجائیں گے جو ان کے لئے وہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تیار کی گئی ہیں۔

درس 6 ایک نظر میں

اس سبق میں یہودی سازشوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان ریشہ دوانیوں کو مزید کھولا جاتا ہے ۔ اسلامی جماعت کو ان کی چالوں اور حیلوں سے خبردار کیا جاتا ہے جو یہودی اسلام کے خلاف استعمال کرتے تھے ۔ نیز بتایا جاتا ہے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف کس قدر بغض وحسد پایا جاتا ہے اور وہ امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے اور ان کے خلاف سازشیں تیار کرنے میں کس طرح رات دن مصروف عمل ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو اپنی بول چال اور اپنے طرز عمل میں ان دشمنان اسلام ، کفار اہل کتاب کے ساتھ ہر قسم کا تشبہ کرنے سے روکا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو یہودیوں کے اقوال اور افعال اور پالیسیوں کے حقیقی اسباب بتائے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کے اتحاد ویکجہتی کے خلاف وہ جو سازشیں ، جو فتنہ انگیزیاں اور جو فریب کاریاں کررہے تھے ، انہیں واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید اور نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق بعض شرعی احکامات اور تکالیف میں رد وبدل اور نسخ جیسے مسائل کی آڑ لے کر مکروہ پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا تھا ۔ انہوں نے جو گہری سازشیں مرتب کی تھی اس کے ذریعے وہ ان احکامات اور تکالیف کے منبع یعنی ذات باری تعالیٰ اور اس کی جانب سے وحی الٰہی کے نزول کی بابت مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے چاہتے تھے ۔ وہ مسلمانوں سے کہتے تھے ” اگر یہ وحی منجانب اللہ ہوتی تو سابقہ احکامات میں ردوبدل اور انہیں منسوخ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ “

یہودی پہلے بھی ایسے پروپیگنڈے کرتے رہتے تھے لیکن جب ہجرت نبوی ﷺ کے 16 مہینے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو ان لوگوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک عظیم طوفان برپا کردیا ۔ ہجرت کے بعد ایک عرصے تک نبی ﷺ ، یہودیوں کے قبلہ ” بیت المقدس “ ہی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس امر سے یہودی یہ استدلال کرتے تھے کہ بس قبلہ حق اور دین حق تو انہی کا دین اور قبلہ ہیں لہٰذا نبی کریم ﷺ کی دلی خواہش یہ تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے تبدیل ہوکر ، بیت الحرام ہوجائے ۔ البتہ نبی ﷺ نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا تھا لیکن اس پورے عرصے میں یہ خواہش بدستور آپ کے دل میں موجود رہی اور اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی اس خواہش کے مطابق آپ ﷺ کے پسندیدہ قبلہ ہی کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا جیسا کہ آئندہ صفحات میں تفصیلات مذکور ہیں ۔ بنی اسرائیل چونکہ اس بات کو اچھی طرح محسوس کررہے تھے کہ تحویل قبلہ کے نتیجہ میں اسلام کے مقابلے میں ان کے دین کی ایک ظاہری برتری بھی ختم ہوجائے گی ۔ اور آئندہ اسے اپنے دین کی برتری کے لئے دلیل کے طور پر استعمال نہ کرسکیں گے لہٰذا اس مرحلے پر انہوں نے اسلامی صفوں انتشار پھیلانے اور وحی الٰہی کے من جانب اللہ کے نزول کے بارے میں اہل ایمان کے عقائد کے اندرشکوک و شبہات پیدا کرنے کی خاطر زبردست پروپیگنڈہ شروع کردیا ۔ ان کی یہ سازش اس قدر گہری تھی کہ اس میں انہوں نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدے اور قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ مسلمانوں سے جو کچھ کہتے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا ” اگر بیت المقدس کی طرف چہرہ کرکے نماز پڑھنا باطل اور خلاف حق تھا تو 16 ماہ تک تمہاری تمام نمازیں ضائع ہوگئیں۔ اور اگر یہ فعل برحق تھا تو پھر تبدیلی کیوں ہوئی ؟ مقصد یہ تھا کہ اب تک انہوں نے جو نمازیں ادا کیں اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا اور یہ کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی قیادت کوئی حکیمانہ قیادت نہیں ہے ۔ (نعوذ باللہ) “

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض مسلمانوں پر اس پروپیگنڈے کے برے اثرات پڑنے لگے تھے ۔ اس لئے وہ نہایت قلق اور بےچینی سے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے سوالات بھی کرنے لگے تھے ۔ کیونکہ یہ واقعہ اس غیر معمولی تھا اور دلوں میں اس قدر خلش پیدا ہوگئی کہ اس کے ہوتے ہوئے اسلامی قیادت پر اطمینان کی فضاقائم نہیں رہ سکتی تھی ۔ نہ اسلامی عقائد کے منبع و ماخذ پر مکمل اعتماد رہ سکتا تھا۔ اس لئے مسلمان بھی اس کی حکمت اور اس کے بارے میں اطمینان بخش دلائل پوچھنے لگے تھے ۔ یہ تھی وہ فضا جس میں قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ ان میں بتایا گیا کہ احکامات میں نسخ ایک گہری حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے زیادہ بہتر احکامات نازل فرماتے ہیں ۔ ایسے احکامات جو نئے حالات میں مسلمانوں کے لئے زیاہ مفید ہیں ۔ کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کن حالات میں کیا حکم بہتر ہے ۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اس امر سے بھی خبردار کردیا جاتا ہے کہ یہودیوں کا اصل مقصد اور کوشش صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بناکر چھوڑدیں کیونکہ ان کو یہ حسد کھائے جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی جیسا فضل وکرم اور اعزازِ عظیم مسلمانوں کو کیوں بخشا ؟ کیونکہ اللہ نے اپنی آخری کتاب مسلمانوں پر نازل کردی ہے اور ان کے مقابلے میں یہ عظیم ذمہ داری کیوں ان کے سپرد کردی ہے ۔ قرآن کریم یہاں اس بات کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ یہودیوں کی ان تما فتنہ سامانیوں کے پیچھے کون سا خفیہ مقصد کام کررہا ہے ۔ اس موقع پر قرآن کریم ان کے اس جھوٹے دعویٰ کا بھی مضحکہ اڑاتا ہے کہ جنت تو صرف ان کے لئے مخصوص ہے ۔ قرآن کریم ان کی آپس کی الزام تراشیوں کو بھی نقل کردیتا ہے کہ یہودی کہتے ہیں ” نصرانیوں کے دین کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ “ اور نصرانی کہتے ہیں ” یہودیوں کے دین کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ “ اور مشرکین آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں ” دونوں باطل پر ہیں۔ “

قرآن کریم تحویل قبلہ کے معاملے میں ان کی بدنیتی اور خفیہ سازشوں کے راز کو یوں کھولتا ہے کہ بیت اللہ توروئے زمین پر اللہ کی پہلی عبادت گاہ ہے اور اس کی طرف چہرہ کرکے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روک کر یہودی اللہ کی مساجد اور عبادت گاہوں کو خراب کرنے کے لئے ایسے جرم کے مرتکب ہورہے ہیں جو خود ان کے نزدیک بھی بہت بڑا جرم ہے ۔

غرض اس پورے سبق میں یہی مضمون آکر تک بیان کیا گیا ہے اور آخر میں مسلمانوں کے سامنے یہودیوں اور نصرانیوں کے اس مقصد کو واضح طور پر رکھ دیا گیا ہے ۔ جوان تمام کاروائیوں سے ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ یعنی مسلمانوں کو اپنے اس دین حق سے پھیر کر اپنے دین پر لے آنا ۔ قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب نبی ﷺ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کی ملت کے پیرو نہ بن جائیں ۔ جب تک آپ ان کی یہ آرزو پوری نہ کریں گے ، مکر و فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کی اس جنگ کو آخری وقت تک جاری رکھیں گے ۔ ان کی تمام فتنہ انگیزیوں ، فریب کاریوں اور ان کی جانب سے پیش کئے جانے والے تمام کھوکھلے دلائل کے پس پشت بس یہی ایک مقصد کارفرما ہے۔