فسقى لهما ثم تولى الى الظل فقال رب اني لما انزلت الي من خير فقير ٢٤
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰٓ إِلَى ٱلظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّى لِمَآ أَنزَلْتَ إِلَىَّ مِنْ خَيْرٍۢ فَقِيرٌۭ ٢٤
فَسَقٰی
لَهُمَا
ثُمَّ
تَوَلّٰۤی
اِلَی
الظِّلِّ
فَقَالَ
رَبِّ
اِنِّیْ
لِمَاۤ
اَنْزَلْتَ
اِلَیَّ
مِنْ
خَیْرٍ
فَقِیْرٌ
۟
3

فسقی لھما (28: 24) ” یہ سن کر موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا “۔ یہاں سیاق کلام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نہایت ہی تربیت یافتہ شریف النفس شخصیت کے مالک تھے۔ وہ جسمانی لحاظ سے بھی ایک کڑیل جوان تھے ، جسے دیکھ کر عام آدمی مرعوب ہوجاتا تھا۔ حالانکہ وہ طویل سفر سے تھکے ہوئے آئے تھے۔ چرواہوں پر ان کی جسمانی قوت سے زیادہ ان کی نفسیاتی برتری اور اخلاقی رویہ نے زیادہ اثر کیا۔ کیونکہ جسمانی قوت کے مقابلے میں لوگ اخلاقی رویوں سے زیادہ مرعوب ہوتے ہیں۔

ثم تولیٰ الی الظل (28: 24) ” پھر ایک سائے کہ جگہ جا بیٹھا “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسم سخت گرمی اور لو کا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس قسم کی شدید گرمی میں یہ سفر کرنا پڑا تھا۔

فقال رب ۔۔۔۔۔ خیر فقیر (28: 24) ” اور بولا پروردگار جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے ، میں اس کا محتاج ہوں “۔ اس وقت انہوں نے جسمانی اعتبار سے درختوں کے گھنے سائے میں اپنے جسم کو آرام پہنچانے کے لیے پناہ لے رکھی ہے ، لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت اور رحم و کرم کرنے والے بادشاہ کے سایہ رحمت میں بھی پناہ چاہتے ہیں۔ اپنی روح اور اپنے قلب کو اللہ کی طرف متوجہ کیے ہوئے ہیں۔ اے اللہ میں محتاج ہوں ، شدید لوہے ، میں اکیلا ہوں۔ اے رب میں بےوسائل ہوں ، اے رب میں تیرے فضل و کرم اور تیرے احسان کا بےحد محتاج ہوں۔

انی لما انزلت من خیر فقیر (28: 24) ” جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں ، اس کا محتاج ہوں “۔ ابھی ہم

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مناجات کے اس منظر میں ہیں ، کہ سیاق کلام میں نہایت فرحت بخش بشارت آتی ہے ۔ اس کا آغاز صرف (فاء) تعقیبی سے ہوتا ہے ، گویا عالم بالا نے حضرت موسیٰ کی دعاء کو اس سے قبل قبول کرلیا کہ وہ ہاتھ نیچے کریں۔ کیونکہ وہ نہایت ہی خضوع سے یہ دعا کر رہے تھے۔