اب بات وحی اور توحید ہی کے مسائل کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے اہل کتاب کا موقف کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کتب سابقہ کے اندر جو ہدایات دی گئی تھیں ، اب یہ آخری کتاب ان کے بارے میں حکم ہے۔ اس کا فرمان قول فیصل ہے اور یہ آخری اور فائنل حکم ہے۔ اس آخری کتاب میں اللہ نے وہ احکام دئیے ہیں جو ابدالاباد تک ثابت رہیں گے۔ ان میں وہ امور بھی ہیں جن کو سابقہ رسولوں پر نازل کیا گیا تھا۔ نیز اس کتاب کے ذریعے اللہ نے سابقہ کتب کی جن باتوں کو مٹانا مناسب سمجھا ان کو مٹا دیا۔ ان کی حکمت سے اللہ ہی خبر دار ہے۔ لہٰذا اے پیغمبر آپ اس موقف پر جم جائیں جو قرآن کا موقف ہے اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں خصوصاً اہل کتاب کی۔ نہ کسی چھوٹے معاملے میں اور نہ کسی بڑے معاملے میں۔ رہے وہ لوگ جو معجزات طلب کرتے ہیں تو انہیں صاف صاف کہہ دو کہ میری ڈیوٹی دعوت پہنچانا ہے۔ جب معجزات کی ضرورت ہو تو اللہ کے اذن سے ان کا ظہور و صدور ہوتا ہے۔
آیت نمبر 36 تا 40
اہل کتاب میں سے جو سچے لوگ ہیں جو دین عیسیٰ کی بنیادی تعلیمات پر کاربند ہیں ، وہ جب قرآن کو پڑھتے ہیں تو قرآن کی تعلیمات کو اپنی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔ مثلاً عقیدۂ توحید وغیرہ میں۔ نیز وہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید تمام ادیان سماوی اور تمام کتب سماوی کی حقانیت کا قائل ہے ، ان سب کا ذکر نہایت ہی احترام سے کرتا ہے اور یہ تصور دیتا ہے کہ تمام اہل ایمان خواہ نبی آخر الزمان کے مومن ہوں یا انبیائے سابقین کے مومن ہوں وہ ایک ہی جماعت اور ایک ہی امت ہیں اور ذات باری ان کا آمرہ ہے۔ ایسے لوگ بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں ۔ یہاں ایسے لوگوں کی کیفیت قلبی کو فرحت سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ جب کوئی شخص سچائی پاتا ہے تو اسے بہت ہی خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنے خیالات کی تصدیق جب قرآن میں پاتے ہیں تو ان کو عقیدہ اور بھی پختہ ہوجاتا ہے اور وہ قرآن پر ایمان لا کر اس تحریک کے حامی بن جاتے ہیں۔
ومن الاحزاب من ینکر بعضہ (13 : 36) ” اور مختلف گروہوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے “۔ یعنی ان سے مراد اہل کتاب اور مشرکین کی بعض جماعتیں ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ کیونکہ مقصد صرف یہ ہے کہ یہاں منکرین کا ذکر کر کے ان کا رد کردیا جائے۔
قل انما امرت۔۔۔۔۔ ماب (13 : 36) ” تم صاف کہہ دو کہ مجھے صاف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤں لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے “۔ یعنی بندگی بھی اسی کی ہے۔ دعوت بھی اللہ کی طرف ہے اور رجوع بھی صرف اللہ ہی کی طرف ہے۔
حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے مقابلے میں اپنا موقف واضح کردیں جو قرآنی تعلیمات میں سے بعض چیزوں کے منکر ہیں۔ یہ کہ وہ پوری کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں گے جو ان پر نازل ہوئی ہے چاہے اس پر اہل کتاب خوش ہوں یا ان میں سے کچھ لوگ ناراض ہوں کیونکہ جو کچھ ان پر نازل ہوا ہے وہ حکم اخیر ہے۔ سابقہ احکام منسوخ ہوگئے ہیں اور یہ کتاب عربی زبان میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم بھی واضح اور مکمل ہے کیونکہ اب یہ اللہ کا آخری پیغام ہے۔ اس لیے ہم نے اب اپنے تمام نظریات اس سے اخذ کرتے ہیں۔
وکذلک انزلنہ حکماً عربیاً (13 : 37) ” اس طرح ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیا ہے “۔
ولئن اتبعت۔۔۔۔ واق (13 : 37) ” اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے “۔ کیونکہ تمہارے پاس جو علم آرہا ہے وہ علم الیقین ہے ، اور دوسرے گروہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کی اپنی خواہشات ہیں ، علم و یقین پر مبنی نہیں ہیں۔ یہ حکم حضرت نبی ﷺ کو تہدید آمیز الفاظ میں دیا گیا ہے۔ یہ انداز اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لئے زیادہ بلیغ طریقہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس معاملے میں قصامح کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہاں تک کہ خود رسول اللہ ﷺ کو بھی اس کی اجازت نہیں حالانکہ رسول ﷺ سے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اگر کسی کو یہ اعتراض ہے کہ حضرت نبی ﷺ بشر ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام رسول بشر ہی گزرے ہیں۔
ولقد ارسلنا۔۔۔۔۔ وذریۃ (13 : 38) ” تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا بنایا تھا “۔
اور اگر اعتراض یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کوئی مادی معجزہ لے کر نہیں آئے۔ تو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے ، یہ تو اللہ کا کام ہے۔
وما کان ۔۔۔۔۔ باذن اللہ (13 : 38) ” اور کسی رسول کی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا “۔ اللہ اپنی حکمت کے مطابق ، جہاں ضرورت ہو وہاں خارق عادت معجزات کا صدور کرا دیتا ہے۔
ہاں اہل کتاب کو دی ہوئی کتابوں اور نبی آخر الزمان کو دی ہوئی کتاب میں بعض جزئیات کے حوالے سے اختلاف ضرور ہے۔ اس لیے کہ ہر دور کی کتاب الگ ہوتی ہے۔ لیکن یہ آخری کتاب ہے۔
لکل اجل کتاب۔۔۔۔۔۔۔ ام الکتب (13 : 38 – 39) ” ہر دور کے لئے ایک کتاب ہے ، اللہ جو کچھ چاہتا ہے ، مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتب ہے “۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا ہو تو وہ جس حکم کو چاہتا ہے ، مٹا دیتا ہے اور جو مفید ہو اسے قائم رکھتا ہے۔ تمام باتوں کی اصل کتاب اور سکیم اس کے پاس محفوظ ہے۔ جس کے اندر اس حذف اور فسخ اور نئے احکام کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ لہٰذا ! سب کتب اسی کی ہیں ، وہی اس میں تصرف اور فسخ کرتا ہے جہاں اور جب اس کی حکمت متقاضی ہو۔ اس کی مشیت کو نہ کوئی رد کرسکتا ہے اور نہ کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے۔
اب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جس عذاب کی دھمکی دی اور جس برے انجام سے انہوں نے دوچار ہونا ہے ، چاہے حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں وہ اس انجام سے دو چار ہوں یا حضور اکرم ﷺ اس سے قبل ہی فوت ہوجائیں ، اس سے ان لوگوں کے انجام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے رسول کی رسالت اور باری تعالیٰ کی الوہیت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وان ما نرینک۔۔۔۔۔ الحساب (13 : 40) ” اے نبی ﷺ جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں ، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے “۔
اس فیصلہ کن ہدایت میں ، تحریک اسلامی کی نوعیت اور تحریک کی لیڈر شپ کے لئے سامان بصیرت ہے ، لیڈر شپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ہر مرحلے میں مناسب پالیسی اختیار کرے اور اپنا فریضہ سر انجام دے۔ ان کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ وہ تحریک کو اس انجام تک پہنچائیں جہاں تک اسے اللہ پہنچانا چاہتا ہے۔ نیز ان کا یہ فریضہ بھی نہیں کہ وہ تحریکی اقدامات اور مراحل میں شتابی دکھائیں نہ ان کا یہ کام ہے کہ تحریک کی ناکامی کا اعلان کر کے مایوس ہوجائیں۔ جب لیڈر شپ دیکھے کہ اللہ کے فیصلے میں دیر ہو رہی ہے اور ان کو تمکن فی الارض نصیب نہیں ہو رہا ہے اور اقدار سے وہ ابھی دور ہیں تو پریشان نہ ہوں ، وہ تو صرف داعی ہیں ، محض داعی۔
اللہ کی قوت کے آثار تمہارے ماحول میں نظر آرہے ہیں۔ اللہ بڑی بڑی مضبوط اقوام کو پکڑتا ہے۔ وہ زوال کے گڑھے میں گرتی ہیں ، اس وقت جبکہ وہ زمین پر سرکشی اختیار کرتی ہیں اور فساد برپا کرتی ہیں۔ ایسی اقوام کی قوت میں کمی ہوتی ہے ، دولت میں کمی ہوتی ہے اور ان کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے۔ کسی وقت تو ان کی حکومت سے سورج غروب نہیں ہوتا لیکن بعد میں وہ سکڑ کر رہ جاتی ہیں اور جب اللہ کسی قوم کی شکست وخسارے کا فیصلہ کرتا ہے تو اللہ سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور اللہ کا فیصلہ نافذ ہوکر رہتا ہے۔
0%