اَنْزَلَ
مِنَ
السَّمَآءِ
مَآءً
فَسَالَتْ
اَوْدِیَةٌ
بِقَدَرِهَا
فَاحْتَمَلَ
السَّیْلُ
زَبَدًا
رَّابِیًا ؕ
وَمِمَّا
یُوْقِدُوْنَ
عَلَیْهِ
فِی
النَّارِ
ابْتِغَآءَ
حِلْیَةٍ
اَوْ
مَتَاعٍ
زَبَدٌ
مِّثْلُهٗ ؕ
كَذٰلِكَ
یَضْرِبُ
اللّٰهُ
الْحَقَّ
وَالْبَاطِلَ ؕ۬
فَاَمَّا
الزَّبَدُ
فَیَذْهَبُ
جُفَآءً ۚ
وَاَمَّا
مَا
یَنْفَعُ
النَّاسَ
فَیَمْكُثُ
فِی
الْاَرْضِ ؕ
كَذٰلِكَ
یَضْرِبُ
اللّٰهُ
الْاَمْثَالَ
۟ؕ
3

آیت نمبر 17

پانی کا نزول اور ندی نالوں کا اس کے ساتھ بہہ نکلنا ایک ایسا مفہوم ہے جو برق اور رعد اور بادلوں کے ساتھ ہم معنی و ہم جنس ہے۔ سابق منظر میں رعد و برق اور سحاب ثقال کا ذکر تھا۔ دونوں اس کائنات کے عام مناظر فطرت کا حصہ ہیں۔ اس سورة کا پیشتر موضوع اور مضمون انہی کے گرد گھومتا ہے۔ اور ان مناظر سے اللہ واحد اور قہار کی قدرت ، غلبے اور گرفت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ندی نالے اپنی مقدار کے مطابق بہہ نکلتے ہیں ، ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق ۔

اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک مقدار مقرر کر رکھی ہے ۔ ہر نالے اور ندی کے لیے بھی پانی کی مقدار مقرر ہے ۔ یہ اللہ کی شان مدبرانہ ہے ، جو اس سورة کا موضوع خاص ہے۔ تمثیل کا یہ دائرہ اور موضوع اور منظر وہی ہے جو پیش پا افتادہ ہے اور جس کو رات اور دن لوگ دیکھتے رہتے ہیں یہ منظر ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتا ہے لیکن یہ اندھوں کی طرح اس پر کوئی غور نہیں کرتے اور نہ یہ مناظر ان کے دامن کش ہوتے ہیں۔

ہماری نظروں کے سامنے پانی برستا رہتا ہے ، ندی اور نالے بہتے رہتے ہیں اور اس دنیا کے خس و خاشاک کو ساتھ بہا کرلے جاتے رہتے ہیں۔ ان ندی نالوں پر جھاگ بھی اٹھتی رہتی ہے ، اس قدر کہ بعض اوقات پانی چھپ جاتا ہے۔ اور جھاگ کے پہاڑ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس جھاگ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ اور پانی جو جھاگ کے نیچے قائم رہتا ہے اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے ۔ نہایت سکون کے ساتھ لگا بندھا ۔ پھر یہ پانی اپنے اندر ایک افادیت رکھتا ہے۔ خیر ہی خیر اور زندگی اور شادابی۔ یہی صورت ان دھاتوں اور خزانوں کی ہوتی ہے جنہیں پگھلایا جاتا ہے۔ اس سے مصنوعات بنتی ہے ، آلات بنتے ہیں اور انسانوں کی حیات کے لئے ممد ثابت ہوتے ہیں مثلاً لوہا ، تانبا اور سیسہ وغیرہ ۔ ان پر بھی جھاگ اٹھتی ہے جو بیکار ہوتی ہے اور جسے پھینک دیا جاتا ہے اور جو صافی چیز ہوتی ہے وہ نیچے رہ جاتی ہے۔ جب جھاگ اٹھ جاتی ہے تو اصل چیز نیچے سے نمودار ہوتی ہے۔

دنیا کی زندگی میں حق و باطل کی یہ مثال ہے۔ باطل کا یہ مظہر اور منظر بسا اوقات سامنے آتا ہے وہ بلند ہوتا ہے ، پھولتا ہے ، دوڑتا بھاگتا ہے۔ اس کا بہت فلو نظر آتا ہے۔ لیکن یہ باطل جھاگ کی طرح ہوتا ہے یا گندے اور خبیث مادے کی طرح ہوتا اور فضلے کی طرح پھینک دیا جاتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے اور اس کی نہ ٹھوس حقیقت ہوتی ہے اور نہ اس کے اندر ٹھہراؤ اور جماؤ ہوتا ہے جبکہ حق ہمیشہ پروقار ، ٹھہرا ہوا اور جما ہوا ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ جم گیا ہے ، اس میں جمود ہے ، بلکہ یہ ختم ہوگیا ہے۔ اس کا سکون موت کی علامت ہے۔ لیکن حق ہمیشہ دنیا میں باقی رہتا ہے جس طرح پانی باقی رہتا ہے اور جھاگ ختم ہوجاتی ہے اور جس طرح پگھلا ہوا مواد اپنی اصل حالت میں باقی رہتا ہے اور لوگوں کو نفع دیتا ہے اور اس کی جھاگ یا فضلہ ختم ہوجاتا ہے اسی طرح حق قائم رہتا ہے۔

کذلک یضرب اللہ الامثال (13 : 17) “ اسی طرح اللہ مثالیں دیتا ہے ”۔ اسی طرح اللہ ہر دعوت اور ہر تحریک کا انجام مقرر کرتا ہے ، ہر نظریہ اور اس کے احیاء کی جدو جہد کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اللہ لوگوں کے اعمال و اقوال کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے۔ وہ مدبر کائنات ہے۔ واحد حاکم اور قہار ہے۔ وہ حق و باطل کی کشمکش کا بھی مدبر ہے اور اس نے یہ قانون قدرت وضع کیا ہے کہ آخر کار باطل نے زائل ہونا ہے اور حق نے غالب آنا ہے۔

لہٰذا یہ بات پلے باندھ رکھو کہ جن لوگوں نے حق پر لبیک کہا ان کا انجام اچھا ہوگا۔ اور جن لوگوں نے دعوت حق کا انکار کردیا وہ ایک نہایت ہی خوفناک اور ہولناک انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہوگی کہ اگر ان میں سے کوئی پوری زمین اور آسمانوں کا مالک ہو تو وہ اس دن کے عذاب سے اپنے آپ کو چھڑانے کے لئے بالکل تیار ہوگا ، لیکن اس کے پاس زمین و آسمان کہاں ہوں گے کہ وہ دے سکے۔ ان کا حساب تو رسوا کن ہوگا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور کیا ہی برا ٹھکانا ہوگا۔

Maksimalkan pengalaman Quran.com Anda!
Mulai tur Anda sekarang:

0%