الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون ٦٢
أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ٦٢
اَلَاۤ
اِنَّ
اَوْلِیَآءَ
اللّٰهِ
لَا
خَوْفٌ
عَلَیْهِمْ
وَلَا
هُمْ
یَحْزَنُوْنَ
۟ۚۖ
3

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ خوب سن لو کہ (قیامت کے دن جب سب لوگوں کو مصیبت میں مبتلا ہونے کا خوف ہوگا) اللہ کے دوستوں کو (عذاب کا) کوئی اندیشہ نہ ہوگا اور نہ وہ (اپنی کسی امید کی ناکامی کے) غم میں مبتلا ہوں گے (یعنی ان کی ہر امید پوری کی جائے گی) ۔

دلاء اور تو الی کا لغوی معنی ہے دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو ‘ یا نسبی ‘ یا دینی ‘ یا اعتقادی ‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ قاموس میں ہے : وَلْیٌ قرب وَلِیٌّ۔ وَلْیٌسے صفت کا صیغہ ہے ‘ جس کا معنی ہے قرب رکھنے والا ‘ دوست ‘ مددگار۔

تنقیح

یوں تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کا اللہ سے قرب ہے جس کی کیفیت نہیں جانی جاسکتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ رگ جان سے بھی زیادہ ہم بندہ کے قریب ہیں۔ اسی قرب کی وجہ سے یہ کائنات جامۂ ہستی پہنتی اور دائرۂ وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا تو کوئی وجود کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا۔ اصل ذات کے اعتبار سے ہر چیز نیست ہے ‘ سب کی اصل عدم ہے لیکن خاص بندوں کو ایک بےکیف قرب اور بھی حاصل ہے ‘ یہ قرب محبت ہے۔ عالم مثال میں اہل کشف کو یہ بےکیف محبت ‘ قرب جسمانی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لفظ قرب کا قرب خلقی اور قرب محبت دونوں پر اطلاق بطور اشتراک لفظی کے ہوتا ہے۔ حقیقت قرب دونوں جگہ جدا جدا ہے۔ مؤخر الذکر قرب کے ان گنت ‘ غیر محدود درجات ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے (ا اللہ نے فرمایا) میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس کو پیار کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ الی آخر الحدیث (یعنی اس وقت وہ جو کام کرتا ہے ‘ وہ گویا میرا عمل ہوتا ہے) رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔

اس قرب کا ابتدائی درجہ صرف ایمان سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور آخری انتہائی درجہ انبیاء کا خصوصی حصہ ہے ‘ جن کے سردار رسول اللہ (ﷺ) ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) کے درجات ترقی پذیر ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔

صوفیہ کی اصطلاح میں کم سے کم وہ درجہ جس پر لفظ ولی کا اطلاق ہو سکتا ہے ‘ اس شخص کا ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں ہر وقت ڈوبا رہتا ہے۔ وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ اللہ کی محبت میں سرشار رہتا ہے۔ کسی اور کی محبت کی اس میں گنجائش نہیں ہوتی خواہ باپ ہو ‘ یا بیٹا ‘ یا بھائی ‘ یا بیوی ‘ یا دوسرے کنبہ والے ‘ کسی سے اس کو محبت نہیں ہوتی۔ اگر کسی سے محبت ہوتی ہے تو محض اللہ کیلئے اور نفرت ہوتی ہے تب بھی خوشنودئ مولیٰ کے حصول کیلئے۔ وہ کسی کو کچھ دیتا ہے تو صرف اللہ کیلئے اور نہیں دیتا ہے تب بھی اللہ کی مرضی کیلئے۔ اس گروہ کی آپس میں محبت لوجہ اللہ ہوتی ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اس صفت کو فناء قلب کہا جاتا ہے۔ ولی کا ظاہر و باطن تقویٰ سے آراستہ ہوتا ہے۔ جو اعمال و اخلاق اللہ کو ناپسند ہیں ‘ ان سے وہ پرہیز رکھتا ہے۔ شرک خفی و جلی سے پاک رہتا ہے ‘ بلکہ وہ شرک جو چیونٹی کی رفتار کی آواز سے بھی زیادہ خفی ہوتا ہے ‘ اس سے بھی بچتا ہے۔ غرور ‘ کینہ ‘ حسد ‘ حرص اور ہوس سے منزہ ہوتا ہے اور انہی کے ساتھ عمدہ اخلاق و اعمال سے متصف ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کو صوفیہ فناء نفس کا مرتبہ کہتے ہیں۔ صوفیہ کا قول ہے کہ اس درجہ پر جب ولی پہنچ جاتا ہے تو اس کا شیطان اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور فرمانبردار بن جاتا ہے۔ ولایت کے ابتدائی درجہ کی طرف اللہ نے