Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 106:1 hingga 106:4
لايلاف قريش ١ ايلافهم رحلة الشتاء والصيف ٢ فليعبدوا رب هاذا البيت ٣ الذي اطعمهم من جوع وامنهم من خوف ٤
لِإِيلَـٰفِ قُرَيْشٍ ١ إِۦلَـٰفِهِمْ رِحْلَةَ ٱلشِّتَآءِ وَٱلصَّيْفِ ٢ فَلْيَعْبُدُوا۟ رَبَّ هَـٰذَا ٱلْبَيْتِ ٣ ٱلَّذِىٓ أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍۢ وَءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفٍۭ ٤
لِاِیْلٰفِ
قُرَیْشٍ
۟ۙ
اٖلٰفِهِمْ
رِحْلَةَ
الشِّتَآءِ
وَالصَّیْفِ
۟ۚ
فَلْیَعْبُدُوْا
رَبَّ
هٰذَا
الْبَیْتِ
۟ۙ
الَّذِیْۤ
اَطْعَمَهُمْ
مِّنْ
جُوْعٍ ۙ۬
وَّاٰمَنَهُمْ
مِّنْ
خَوْفٍ
۟۠
3

قریش ایک تجارتی قوم تھے۔ گرمی کے زمانہ میں ان کے تجارتی قافلے شام اور فلسطین کی طرف جاتے تھے، اور سردیوں کے زمانہ میں وہ یمن کی طرف تجارتی سفر کرتے تھے۔ انہیں تجارتوں پر ان کی معاشیات کا انحصار تھا۔ قدیم زمانہ میں جب کہ تاجروں کو لوٹنا عام تھا، قریش کے قافلے راستے میں لوٹے نہیں جاتے تھے۔ اس کی وجہ کعبہ سے ان کا تعلق تھا۔ قریش کعبہ کے خادم اور متولی تھے اور لوگوں کے ذہنوں پر چوں کہ کعبہ کا بہت زیادہ احترام تھا۔ وہ کعبہ کے خادموں اور متولیوں کا بھی احترام کرتے تھے اور اس بنا پر وہ ان کو نہیں لوٹتے تھے۔

یہاں حکمتِ دعوت کے تحت قریش کو یہ واقعہ یاد دلاتے ہوئے انہیں اسلام کی طرف بلایا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ بڑی ناشکری کی بات ہوگی کہ تم بیت اللہ کے دنیوی فائدے تو حاصل کرو، اور اس سے وابستہ ہونے کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا نہ کرو۔ جو خدا انسان کو مادی فائدے پہنچاتا ہے اسی خدا کی اس کو عبادت بھی کرني چاہيے۔