واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم واخرين من دونهم لا تعلمونهم الله يعلمهم وما تنفقوا من شيء في سبيل الله يوف اليكم وانتم لا تظلمون ٦٠
وَأَعِدُّوا۟ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍۢ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَىْءٍۢ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ٦٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

لیکن اسلام یہ حکم بھی دیتا ہے کہ جماعت مسلمہ کے دائرہ قوت کے اندر جو بھی ہوسکے وہ جائز ذرائع اختیار کرے اور تیاری کرے ، اگرچہ ان کو یہ اطمینان ہے کہ انہیں نصرت خداوندی حاصل ہے ، تاہم پھر بھی ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی تیاری مکمل رکھیں اور وہ وسائل فراہم کریں جن کو انسانی فطرت جانتی ہے اور جو انسانوں کے تجربے کے اندر ہیں ، اسلام ان لوگوں کو عالم بالا کی نصرت کی طرف دیکھنے کا مشورہ اس وقت دیتا ہے جب وہ ظاہری اعتبار سے اپنی مکمل تیاری کرلیں اور حقیقت پسندانہ جدوجہد کے لیے تیار ہوں تاکہ وہ اعلی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہوں جو اسلام کے پیش نظر ہیں۔

اپنی قوت اور مقدرت کے مطابق تیاری کرنا فریضہ جہاد کے ساتھ ساتھ ضروری ہے۔ یہ آیت حکم دیتی ہے مسلمانوں کو مختلف قسم کی جنگی تیاریاں اور سازوسامان فراہم رکھنا چاہئے اور یہاں خصوصا تیار بندھے رہنے والے گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ اس وقت کے جنگی سامان کا اہم حصہ تھے ، جس وقت قرآن کریم نازل ہو رہا تھا۔ اگر قرآن کریم اس وقت گھوڑوں کے بجائے موجودہ دور کے سازوسامان کی تیاری کا حکم دیتا تو یہ ایک نامعلوم اور حیران کن سازوسامان کا حکم ہوتا اور وہ سن کر ہی حیران ہوجاتے۔ اس لیے اللہ نے لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق بات کی اور اللہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی بات کرے جسے مخاطب سمجھ ہی نہ سکیں۔ مناسب بات یہی ہے ، عام حکم دیا جائے اور وہ یہ ہے واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ " اور تم جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت تیار رکھو "۔ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ضروری قوت موجود ہو اور وہ اس قوت کے بل بوتے پر آگے بڑھے اور تمام انسانوں کو تمام غلامیوں سے رہا کرائے۔ چناچہ اس قوت کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس قدر آزاد کرادے کہ وہ کوئی بھی نظریہ قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہ ہو اور نہ دنیا میں ایسی قوت ہو کہ کسی کسی مخصوص عقیدے کے اختیار پر مجبور کرسکتی ہو۔ دوسرا فریضہ یہ ہے کہ یہ قوت دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر خوفزدہ کردے کہ وہ اسلامی قوت کے مرکز دار الاسلام پر حملے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ اور تیسرا فریضہ یہ ہے کہ دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر مرعوب کردیا جائے کہ وہ اسلام کی راہ روکنے کے بارے میں کسی بھی وقت نہ سوچیں۔ تاکہ اسلامی تحریک اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو آزاد کرسکے۔ اور چوتھا فریضہ یہ ہے کہ ہی اسلامی قوت ان تمام قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے جو اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت قائم کرتی ہیں اور لوگوں پر اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت اور اپنا قانون جاری کرتی ہیں اور وہ یہ اعتراف نہیں کرتیں کہ حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ کیونکہ وہی الہ ہے ، وحدہ لاشریک۔

اسلام کوئی اس لاہوتی نظام نہیں ہے جس کا تعلق صرف عقائد و نظریات سے ہو ، یا وہ کچھ مراسم عبودیت میں دخیل ہو اور آگے بس اس کا کام ختم ہو۔ بلکہ اسلام پوری زندگی کا ایک عملی نظام ہے اور وہ تمام دوسرے نظاموں کے مقابلے میں آکر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ان تمام قوتوں سے برسر پیکار ہوجاتا ہے جو ان باطل نظآموں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہیں۔ لہذا اس کے سوا اسلام کے لیے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی راہ میں حائل ہونے والی تمام قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے کیونکہ یہ قوتیں اسلام کی راہ روکتی ہیں اور اسے قائم ہونے نہیں دتیں بلکہ یہ قوتیں ، اسلام کے بالمقابل دوسرے نظآم قائم کرتی ہیں۔

اس عظیم حقیقت کے اعلان کے وقت کسی بھی مسلمان کو شف شف نہیں کرنا چاہئے اور نہ جلدی جلدی سرسری بات کرنا چاہئے کہ کوئی سمجھ بھی نہ سکے۔ پھر اس حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو شرم بھی محسوس نہ کرنا چاہیے بلکہ انہیں اس حقیقت کا اعلان سر اٹھا کر کرنا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ یہ در اصل انسان کی آزادی کی تحریک ہے اور وہ اس کا علمبردار ہے۔ یہ کسی انسانی نظام حیات کا علمبردار نہیں ہے ، نہ کسی لیڈر کی حکومت کا قیام چاہتا ہے۔ نہ کسی طبقے کی نسلی گروہ اور فرقے کی حکومت چاہتا ہے۔ اس کا نصب العین یہ نہیں ہے کہ وہ مزارعین کو غلام بنائے تاکہ وہ جاگیر داروں کی خدمت کریں جیسا کہ رومی تہذیب والوں کا مقصد تھا ، اور اس کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا پر قبضہ کرکے تمام دنیا کے خام مال پر قبضہ کیا جائے اور اپنی صنعتوں کو فیڈ کیا جائے جس طرح مغربی استعمال کا یہ مقصد تھا اور نہ وہ اس لیے اٹھا ہے کہ کسی علاقے میں کسی پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرکے دوسرے لوگوں کو مویشیوں کی طرح غلام بنا دے جیسا کہ نظام اشتراکیت میں تھا۔ یہ تو علیم وخبیر اور حکیم وبصیر کے اقتدار اعلی کے قیام کا علمبردار ہے۔ وہ اللہ کی حاکمیت کا قیام چاہتا ہے اور دنیا میں تمام انسانوں کو تمام غلامیوں سے نجات دینا چاہتا ہے ۔ اس طرح کہ کوئی بندہ کسی بندے کا غلام نہ ہو۔

یہ ہے وہ عظیم حقیقت جسے شکست خوردہ ذہنیت کے مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ، جو دین اسلام اور نظآم اسلامی کی بےجا مدافعت کرتے ہیں اور اس مدافعت میں بھی وہ محض شف شف کرتے ہیں اور کوئی بات صاف ستھری اور واضح نہیں کرسکتے اور اسلام کے نظریہ جہاد کے لیے عذر لنگ تلاش کرتے ہیں۔ ـ(تفصیلات کے لیے دیکھئے ابو الاعلی مودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان کا قیمتی رسالہ الجہاد فی الاسلام) نیز ہم نے سورت انفال کے مقدمے میں اسلام کے نظریہ جہاد پر جو تفصیلی بحث کی ہے اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔

پھر اس آیت میں ہمیں جس حد تک تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی حدود کا بھی ہمیں اچھی طرح علم ہونا چاہی کہ و اعدوا لھم ما ستطعتم۔ یعنی جس قدر تمہاری استطاعت میں ہو یعنی تیاری میں اپنی پوری قوت صرف کردو ، یعنی جنگ اور فتح کے تمام وسائل فراہم کیے جائیں یعنی ممکن حد تک۔

پھر اس آیت میں تیار کی غرض وغایت بھی بتا دی گئی ہے کہ اس کی غرض یہ ہے ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم و اخرین من دونہم لا تعلمونہم اللہ یعلمہم۔

تاکہ اس کے ذریعے تم اپنے دشمنوں اور اللہ کے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوفزدہ کرسکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ یعنی اس تیار کے مقاصد یہ ہیں کہ اس سے تمہارے دشمن جو اللہ کے دشمن ہیں ، خوفزہ ہوجائیں۔ ان میں وہ ظاہری دشمن بھی شامل ہیں جن کو مسلمان جانتے ہیں اور کچھ ان کی پشت پر دشمن طاقتیں ہیں جن کا علم مسلمانوں کو تو نہیں ہے لیکن اللہ کو ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی دشمنی کا اظہار نہیں کیا ہے اور اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے۔ ان لوگوں کو اسلام کی قوت مرعوب کردے گی۔ اگرچہ ابھی ان کو مسلمانوں کی جنگی قوت عملاً نہ پہنچی ہو۔ غرض مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ وہ صاحب قوت ہوں اور ان پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک قوت جمع کریں تاکہ وہ زمین کے تمام لوگوں کے لی باعث خوف ہوں اور یہ اس لیے کہ دنیا پر اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔

اب جنگی تیاریوں کے لیے چونکہ اخراجات ہوں گے اور تھے۔ پھر اس وقت اسلام معاشرہ صرف باہم تکافل پر چل رہا تھا۔ لہذا جنگی تیاریوں کے حکم کے ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں اپنی دولت کو خرچ کرو۔ وما تنفقوا من شیء فی سبیل اللہ یوف الیکم وانتم لا تظلمون " اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے وہ پورے کا پورا تمہیں مل جائے گا اور تم پر ظلم نہ ہوگا " اس طرح اسلام جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کو تمام دنیاوی اغراض و مقاصد سے پاک کردیتا ہے۔ ان مقاصد کو ذاتی خواہشات سے بلند کردیتا ہے۔ ہر قسم کی قومی ، طبقاتی اور وطنی شعور اور جذابت سے انہیں جدا کردیتا ہے تاکہ وہ محض فی سبیل اللہ ہوں اور اللہ کی رضا مندی کے لیے ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام آغاز ہی سے ان تمام جنگوں کی ممانعت کردیتا ہے جو بعض اشخاص کی برتری کے لیے لڑی جاتی ہیں ، یا بعض حکومتوں کی برتری کے لی لڑی جاتی ہیں یا منڈیوں پر قبضے کے لیے لڑی جاتی ہیں یا لوگوں پر غالب ہونے اور انہیں ذلیل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ یا ایک ملک کی دوسرے ملک پر برتری کے لیے لڑی جاتی ہیں ، یا ایک قوم کی دوسری قوم پر برتری کے لی لڑی جاتی ہیں یا ایک نسل کی برتری کے لیے یا ایک طبقے کی دوسرے طبقات پر برتری کے لیے لڑی جاتی ہیں اسلام صرف ایک جنگ کی اجازت دیتا ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ اور اللہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی نسل دوسری نسلوں ، یا کوئی وطن اور دوسرے اوطان پر یا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقات پر ، یا فرد دوسرے افراد پر یا کوئی دوسری قوم دوسری اقوام پر غالب ہو کر اپنی حاکمیت ، اپنی حکومت اور اپنا اقتدار اعلی کو قائم کرے۔ وہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز ہے۔ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی حاکمیت دنیا میں قائم ہو تاکہ دنیا میں خیر و برکت ، آزادی اور شرافت کا دور دورہ ہو۔ اور یہ صرف اللہ کی حاکمیت کے زیر سایہ ہوسکتا ہے۔