undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 12{ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ۔ } ”تو جو چاہے اس سے نصیحت اخذ کرلے۔“ آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں ‘ اگر ابوجہل اور ابولہب اس ہدایت سے مستفید نہیں ہونا چاہتے تو نہ ہوں آپ ﷺ بھی ان کی پروا نہ کریں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورة الکہف میں فرمایا گیا :{ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰٹہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ } ”اور اپنے آپ کو روکے رکھیے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح وشام ‘ وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور آپ ﷺ کی نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں ‘ جس سے لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ آپ ﷺ دُنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش چاہتے ہیں ! اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حد سے متجاوز ہوچکا ہے۔“ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سردارانِ قریش کی طرف التفات معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ! کسی ذاتی غرض کی وجہ سے تو نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ اسلام کی تقویت کے لیے ان کے قبول اسلام کے آرزومند تھے۔۔۔ لیکن ان کی موجودگی میں اپنے کسی ساتھی سے بےاعتنائی لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرسکتی تھی کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی دولت و ثروت کی وجہ سے ان کی طرف ملتفت ہیں اور اپنے نادار ساتھیوں سے مغائرت برت رہے ہیں۔ اگلی آیات عظمت قرآن کے ذکر کے حوالے سے پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان آیات کے بین السطور میں یہ پیغام بھی ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے ان ”بڑے لوگوں“ کے پیچھے اپنے آپ ﷺ کو جس انداز میں ہلکان کر رہے ہیں اور یہ لوگ جس ”بےنیازی“ سے قرآن کو نظر انداز کر رہے ہیں اس سے قرآن کے استخفاف کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے پڑ کر انہیں دعوت مت دیں۔ ظاہر ہے یہ پیغام قیامت تک کے داعیانِ حق کے لیے بھی ہے۔ اس ضمن میں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ گو معاشرے کے صاحب حیثیت لوگوں کا کسی جماعت میں شامل ہونا اس جماعت کے مشن کی ترویج و ترقی کے لیے بہت مفید ہے ‘ لیکن ایسے لوگوں کو خصوصی اہتمام سے دعوت دینے اور پھر خصوصی اہتمام سے اپنی جماعت میں خوش آمدید کہنے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اپنے ”نظریے“ کی بےتوقیری کا تاثر ملے یا پرانے کارکنوں کے دلوں میں مغائرت کا احساس پیدا ہو۔ لہٰذا کسی بھی جماعت کے امیر کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر صاحب حیثیت لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنے کی کوشش دراصل اس ُ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے خود داری اور تکبر کے درمیان یا خوش اخلاقی اور خوشامد کے مابین بہت باریک سا فرق ہے ‘ لیکن اگر کوئی انسان اس باریک سے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو اس کی ایک بہت اعلیٰ صفت کو لوگ اس کی بہت بڑی خامی پر بھی محمول کرسکتے ہیں۔ لہٰذا حکمت ِتبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حساس ّفرض کی ادائیگی دو انتہائوں کے درمیان رہتے ہوئے بہت محتاط انداز میں سرانجام دی جائے۔

Maximisez votre expérience avec Quran.com !
Commencez votre visite maintenant :

0%