Vous lisez un tafsir pour le groupe d'Ayahs 5:24 à 5:26
قالوا يا موسى انا لن ندخلها ابدا ما داموا فيها فاذهب انت وربك فقاتلا انا هاهنا قاعدون ٢٤ قال رب اني لا املك الا نفسي واخي فافرق بيننا وبين القوم الفاسقين ٢٥ قال فانها محرمة عليهم اربعين سنة يتيهون في الارض فلا تاس على القوم الفاسقين ٢٦
قَالُوا۟ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَآ أَبَدًۭا مَّا دَامُوا۟ فِيهَا ۖ فَٱذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَـٰتِلَآ إِنَّا هَـٰهُنَا قَـٰعِدُونَ ٢٤ قَالَ رَبِّ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِى وَأَخِى ۖ فَٱفْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ ٱلْقَوْمِ ٱلْفَـٰسِقِينَ ٢٥ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةًۭ ۛ يَتِيهُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْفَـٰسِقِينَ ٢٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” قَالُواْ یَا مُوسَی إِنَّا لَن نَّدْخُلَہَا أَبَداً مَّا دَامُواْ فِیْہَا فَاذْہَبْ أَنتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ (24)

(لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ ” اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے ‘ جب تک وہ وہاں موجود ہیں ۔ بس تم اور تمہارا رب ‘ دونوں جاؤ اور لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں) یوں بزدل صفوں سے نکل جاتے ہیں اور شرمندہ ہوجاتے ہیں ۔ وہ خطرات سے ڈر کر پانبر نجیر ہوجاتے ہیں ‘ جس طرح گدھوں کے پاؤں باندھ دیئے جاتے ہیں اور پھر وہ کوئی اقدام نہیں کرتے ۔ بزدلی اور بےشرمی آپس میں متضاد نہیں ہیں نہ ایک دوسرے سے دور ہیں ۔ یہ اوصاف بعض اوقات اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔ ایک بزدل جب اپنے فرائض کی طرف آگے بڑھتا ہے تو وہ بزدلی دکھا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ وہ اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح اس نے فرض کو ترک کردیا ۔ پھر وہ اس مقصد ہی کو برا کہتا ہے ‘ اس دعوت کو بھی برا بھلا کہتا ہے ‘ جو اس سے بات کا مطالبہ کرتی ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتا ۔

(آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “۔ (5 : 24) (بس تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) یہ تھی ایک کمزور اور بزدل کی عاجزی اس کی زبان سے بہت ہی تیز ہے لیکن مقصد کی طرف بڑھنے کے لئے اس کے قدم بوجھ ہیں اور وہ تیروں کی چبھن محسوس کرتا ہے ۔ (آیت) ” فاذھب انت وربک “۔ (5 : 24) (جاؤ تم اور تمہارا رب) اگر وہ اب ہمیں جنگ پر مجبور کرتا ہے تو ہم اس کی الوہیت کو قبول نہیں کرتے ، یہ تمہارا رب ہے ۔ (آیت) ” انا ھھنا قعدون “۔ (5 : 24) (ہم تو یہاں ہی بیٹھے ہیں) ہمیں نہ تو مملکت کی ضرورت ہے ‘ نہ عزت کی ضرورت ہے ‘ نہ ارض موعودہ کی ضرورت ہے ۔ اس وقت تک اس میں جبار قوم موجود ہے ۔۔۔۔ یہ تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد کا انجام ۔۔۔۔ طویل سفر ‘ اس میں ذلت و خواری ‘ اور بنی اسرائیل کی جانب سے بار بار انحراف ‘ پہلوتہی اور قدم قدم پر نافرمانی ۔۔۔۔۔ یقینا یہ ان کا انجام ہے کہ وہ ارض مقدس کی فتح سے الٹے پھرتے ہیں ، حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ساتھ ہیں اور وہ اس سرزمین کی دہلیز پر ہیں ۔ وہ اس سرزمین کی دہلیز پر ہیں ۔ وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہدوپیمان سے پھرتے ہیں ۔ حالانکہ اس عہد قدیم کا اس عہد یعنی فتح بیت المقدس سے گہرا ربط تھا ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مایوسی کے عالم میں کریں تو کیا کریں ؟

(آیت) ” قال رب انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بیننا وبین القوم الفسقین “۔ (5 : 25) (اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” اے میرے رب ‘ میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر میری اپنی ذات یا میرا بھائی ‘ پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے ۔ “

یہ ایک ایسی پکار ہے جو رنج والم سے بھری ہوئی ہے ۔ اس میں ایک طرف التجاء ہے تو دوسری جانب مکمل تسلیم ورضا ہے اور اس کے بعد فیصلہ کن پختگی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اچھی طرح علم تھا اور یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کے بھائی کے سوا اور کوئی کا حامی نہیں رہا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک شرمندہ انسان کے ضعف اور ایک نبی جو کلیم اللہ ہے ‘ اس کے ایمان کے بیچ میں کھڑے ہیں اور ایک راست باز مومن کی طرح عزم صمیم کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے کہ صرف اللہ کی متوجہ ہوں اور اس کے سامنے اپنے درد و دکھ کا اظہار بشکل سرگوشی کریں اور یہ مطالبہ کریں کہ اے اللہ مجھے اجازت دے دے کہ میں اس فاسق قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاؤں اس لئے کہ جب انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے پختہ عہد سے روگردانی اختیار کرلی تو اب ان کے ساتھ نبی کلیم کا تعلق ہی کیا رہ گیا ہے ؟ وہ ان کے ساتھ بوجہ نسب نامہ مربوط نہ تھے ‘ نہ یہ کہ ان کی تاریخ ایک ہے ‘ نہ ان کا واسطہ ان کے ساتھ اس اساس پر تھا کہ انہوں نے ایک جگہ مل کر جدوجہد کی تھی اور رفیق کار تھے ۔ ان کے درمیان رابطہ تو دعوت الی الحق کی اساس پر ہی تھا ۔ ان کے درمیان رابطہ یہی عہد قدیم تھا اور یہ عہد انہوں نے توڑ ڈالا تھا ۔ اس لئے ان کے درمیان مکمل قطع تعلق ہوگیا اور نہایت ہی گہرائی تک چلا گیا ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہیں رہا ہے ۔ حضرت اپنے عہد ومیثاق کے پابند ہیں اور قوم نے اس سے نافرمانی اختیار کرلی ہے ۔ وہ عہد پر پختہ جمے ہوئے ہیں اور قوم اس سے برگشتہ ہوگئی ہے ۔

یہ ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے ادب اور احترام ۔ اور یہی ہے ان کی سنت اور یہی ہے ایک سچے مومن کا منصوبہ ۔ اور یہی ہے وہ اساس اور رابطہ جس پر لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں ۔ اس راہ میں قوم ‘ نسب ‘ نسل اور مشترکہ تاریخ کچھ چیز نہیں ہے اس میں اس زمین کے تعلقات میں سے کوئی تعلق کام نہیں دیتا ۔ راہ میں جب نظریات کا تعلق ٹوٹ جائے تو تمام تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور جب عقیدے جدا ہوجائیں تو راستے اور منہاج بھی جدا ہوجاتے ہیں ۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی پکار کا جواب دیتے ہیں اور فاسقوں کو پوری پوری سزا دے دی جاتی ہے ۔

(آیت) ” قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ ، یتیھون فی الارض ، فلا تاس علی القوم الفسقین “۔ (26)

” اللہ نے جواب دیا ” اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے ‘ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے ‘ ان نافرمانوں کی حالت پر ہر گز ترس نہ کھاؤ۔ )

اللہ تعالیٰ نے ان بدبختوں کو صحراؤں کے حوالے کردیا حالانکہ وہ ارض مقدس کی دہلیز پر تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ سرزمین حرام کردی جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی اور راجح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس وقت موجود نسل پر اس سرزمین کو حرام کردیا تھا ‘ اور جب تک ان کے نطفوں سے جدید نسل تیار نہ ہوئی وہ اسی طرح مارے مارے پھرتے رہے ۔ چناچہ ان پر ازض موعود میں داخلہ اس وقت تک ممنوع رہا جب تک نئی نسل تیار نہ ہوگئی ‘ ایسی نسل جو نصیحت قبول کرتی ہو ‘ یہ نسل خالص صحرا نوروی کی حالت میں تیار ہوئی اور یہ بالکل آزاد منش اور حریت پسند تھی ۔ یہ وہ نسل نہ تھی جسے ذلت ‘ غلامی اور مصریوں کے مظالم نے کمزوری کا خوگر بنا دیا تھا ۔ اس لئے وہ نسل اس کام کے لئے موزوں نہ تھی جو اولو العزم لوگوں کا کام ہے ۔ ذلت ‘ غلامی اور ظلم انسان کی فطرت کو خراب کردیتے ہیں ۔ اسی طرح ان چیزوں سے قوموں کی فطرت بھی خراب ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ غلامی اور ظلم انسان کی فطرت کو خراب کردیتے ہیں ، اسی طرح ان چیزوں سے قوموں کی فطرت بھی خبراب ہوجاتی ہے اس لئے کہ غلامی میں قوموں کے ضمیر بدل جاتے ہیں ۔

یہاں آکر بات ختم ہوجاتی ہے اور ان لوگوں کو صحرا کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس پر مزید ان کے بارے میں یہاں کچھ نہیں کہا جاتا ۔ یہ ایک ایسا انداز ہے جس میں نفسیاتی عبرت آموزی اور فنی خوبصورت دونوں ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں یہ قرآن کریم کا خاص انداز بیان ہے ۔

اس سبق کو مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا ‘ اللہ نے ان کے سامنے یہ پوری کہانی اسی انداز میں رکھ دی تھی جس طرح وہ پیش آئی تھی ۔ چناچہ انہوں نے اپنے نبی سے کہا : اے محمد ! آج ہم وہ بات نہ کہیں گے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کہی تھی کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو تم دونوں ‘ ہم تو یہاں ہی بیٹھے ہیں ۔ (فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ (5 : 24) (قرآن کریم کے اندازتربیت کے یہ بعض نمونے ہیں ۔ قرآن عام قصص کے انداز میں تربیت کرتا ہے ‘ یہ تھے قصہ بنی اسرائیل کے بیان کی حکمت کے بعض پہلو) ۔

درس نمبر 48 ایک نظر میں :

اس سبق میں انسانی زندگی کے لئے بعض نہایت ہی اساسی قوانین وضع کئے گئے ہیں وہ احکام جو جان کی حفاظت کے لئے ہیں ۔ یہ احکام اس معاشرے کے لئے ہیں جس میں اسلامی زندگی رائج ہو ۔ ان قوانین کا مقصد اسلامی نظام زندگی کی حمایت اور اس نظام کے خلاف بغاوت کے راستوں کو بند کرتا ہے اور اس حکومت کو بچانا ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق قائم ہو اور شریعت کے زیر سایہ کام کر رہی ہو ۔ نیز اس سے سوسائٹی کا تحفظ مطلوب ہے جو شریعت اسلامی کے زیر سایہ اور ایک اسلامی حکومت کے زیر سایہ کام کر رہی ہو ۔ ان احکام سے اسلامی حکومت کی رعایا کے مال اور جان دونوں کی حفاظت مطلوب ہے ‘ بشرطیکہ یہ معاشرہ ‘ یہ حکومت اور یہ نظام اسلامی شریعت کے مطابق چل رہے ہوں ۔

اس پورے سبق میں ‘ سوسائٹی کی اجتماعی زندگی کے بچاؤ کے سلسلے میں نہایت ہی اساسی احکام دیئے گئے ہیں لیکن اس سبق کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے سے کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ قتل و غارت کے اس جرم کے ارتکاب کے وقت مجرمین کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ وہ کیا اسباب اور فیکٹر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مجرم جرم کا ارتکاب کے وقت مجرمین کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ وہ کیا اسباب اور فیکٹر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مجرم جرم کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس سبق میں بتایا جاتا ہے کہ یہ جرم نہایت ہی گھناؤنا ہے اور یہ کہ اس کا تدارک اور سدباب کرنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ اس جرم کے مجرم کو سزا دینا بھی بہت ضروری ہے اور ان اسباب اور موثرات پر قابو پانا بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ اس قصے کے تمام اشارات مکمل طور پر ان احکام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو اس قصے کے بعد آتے ہیں ۔ ایک غور وفکر سے پڑھنے والا اس بات کو بسہولت بسہولت محسوس کرسکتا ہے کہ اس سیاق کلام میں اس قصے کو لانے کا مقصد کیا ہے ؟ اور وہ کس قدر عمیق اور تشفی بخش اشارہ ہے ‘ جو یہ قصہ نفس انسانی پر انڈیلتا ہے اور اسے اس میں پیوست کردیتا ہے ۔ یہ قصہ انسان کے دل و دماغ کو ان احکام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کردیتا ہے کہ وہ ان سخت سزاؤں کو قبول کرے جو اسلام محاربت اور جان کے خلاف جرائم اور نظام ملکیت کے خلاف جرائم اور نظام مملکت میں اسلامی عدالتوں کی طرف سے نافذ ہوں گی جو اسلامی شریعت کے مطابق کام کرتی ہیں ۔

اسلامی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام کے مطابق شریعت محمدیہ کے تحت چلائے ۔ وہ اپنے معاملات ‘ اپنے روابط اور تعلقات اسلامی نظام اور اسلامی قانون شریعت کے مطابق منظم کرے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق یہ معاشرہ ایک فرد کا کفیل بھی ہوگا ‘ ایک جماعت کا بھی وہ کفیل ہوگا اور فرد اور سوسائٹی دونوں کو انصاف ‘ سیکورٹی ‘ اطمینان اور سکون عطا کرسکے گا ۔ وہ ان تمام عناصر کے فساد کے دروازے بند کرسکے گا جو افراتفری ‘ بےچینی ‘ دباؤ اور گھٹن پیدا کرتے ہیں اور وہ تمام اسباب ختم ہوجائیں گے جن کی وجہ سے معاشرے کے اندر ظلم و زیادتی ہوتی ہے ۔ اسی طرح لوگوں کی حاجات اور ضروریات بھی بڑی آسانی سے پوری ہو سکیں گی ۔ اسی طرح اس قسم کے باہم متکافل ‘ متوازن ‘ منصفانہ اور فاضلانہ معاشرے کے اندر کسی کی جان اور مال پر ‘ کسی کی انفرادی کی ملکیت پر یا نظام مملکت کے خلاف اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہایت ہی بری حرکت اور سخت جرم سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے لئے کوئی وجہ جوا زیا عذر یا ایسے حالات نہیں ہوتے جو اس جرم کے لئے مخفف (Mit gAting) ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرم اور مجرم کے خلاف اسلام کی جانب سے یہ سختی اس وقت کی جاتی ہے جب ایک فرد کے لئے صحیح راہ پر چلنے کے تمام مواقع فراہم کردیئے جائیں ‘ یعنی معتدل مزاج لوگوں کے لئے درست طور پر زندگی بسر کرنے کے حالات موجود ہوں اور ایسے حالات موجود ہوں کہ ایک فرد اور ایک جماعت اگر چاہیں تو پاکیزہ زندگی بسر کرسکتے ہوں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اسلامی نظام حکومت اور اسلامی نظام عدالت مجرم کو مکمل قانونی تحقیقات اور قانونی فیصلے کے حقوق دیتا ہے ۔ اگر ذرا بھی شبہ پیدا ہوجائے تو شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کردیئے جاتے ہیں ۔ نیز اس کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھلا چھوڑا جاتا ہے جس کے مطابق بعض حالات میں اس کا جرم اس دنیا میں بھی معاف ہو سکتا ہے جبکہ آخرت میں اس کے تمام جرائم اور گناہوں کو بہرحال اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے ۔۔۔۔ ۔۔ اس درس میں ہم اس کے تمام پہلو اور نمونے پائیں گے اور متعدد و احکام اور قوانین کا ذکر ہوگا ۔

لیکن آیات کی تفسیر اور براہ راست احکام پر کلام کرنے سے پہلے ‘ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک عام اور اہم بات یہاں نوٹ کرلی جائے یعنی وہ معاشرہ کیسا ہوگا جس میں یہ سخت قوانین نافذ ہوں گے اور قوت نافذہ کے لئے حدود وقیود کیا ہیں ؟

اس سبق میں جو احکام اور قوانین وارد ہیں ‘ چاہے ان کا تعلق ان جرائم سے ہو جو نفس کے خلاف ہوں یا ان احکام سے ہو جو نظام مملکت کے خلاف ہوں یا ان احکام سے جو کسی کے مال کے خلاف ہوں ؟ ان کی حیثیت ان دوسرے شرعی احکام جیسی ہی ہے جو جرائم حدود ‘ قصاص اور تعزیرات میں وارد ہیں ۔ یعنی یہ تمام احکام تب نافذ ہوں گے جب ان کی قوت نافذہ اسلامی معاشرے کی شکل میں ‘ دارالاسلام میں موجود ہو۔ لہذا ضروری ہے کہ شریعت کے مطابق دارالاسلام کی تعریف بھی کردی جائے ۔

اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک پوری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے اور ہم کوئی تیسرا بلاک تسلیم نہیں کرتے ۔

پہلا بلاک دارالاسلام ہے اور اس سے مراد وہ ملکت ہے جس کے اندر اسلامی احکام نافذ ہوتے ہیں ۔ جس کا قانونی نظام شریعت پر مبنی ہو ‘ چاہے اس کے باشندے سب کے سب مسلمان ہوں یا مسلمانوں اور ذمیوں دونوں پر مشتمل ہوں یا اس کے لوگو سب کے سب غیر مسلم ہوں اور حکمران مسلمان ہو اور اسلامی ملک کا قانون ہو اور فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ (اگرچہ ذمہ پر تمام احکام اسلامی شریعت لازمی نہیں ہیں ‘ اسلام کے صرف سول اور فوجداری احکام لازم ہیں) یا صورت یہ ہو کہ تمام آبادی مسلم ہے یا مسلم اور غیر مسلم مشترکہ آبادی ہو لیکن اس ملک پر حربی غیری مسلموں کا قبضہ ہوجائے لیکن ملک کا قانون نظام نہ بدلا گیا ہو اور ملک کے باشندے بدستور اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہوں ۔ اس لئے کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کا مکمل دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ اس کا قانونی نظام شریعت کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے اندر تنازعات کا فیصلہ شریعت پر ہوتا ہے یا کسی دوسرے قانون پر ۔

دوسرا دارالحرب ہے اور دارا الحرب ہر وہ ملک ہے جس میں اسلامی شریعت نافذ نہ ہو اور جس میں فیصلے شریعت کے مطابق نہ ہوتے ہوں ، رہے اس کے باشندے تو وہ جس مذہب وملت کے پیروکار ہوں ‘ چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں ‘ چاہے وہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہوں ‘ یا وہ دوسرے کفار ہوں وہ دارالحرب کے باشندے ہوں گے ۔ اس لئے کسی ملک کے دارالحرب ہونے کا مدار بھی مکمل طور پر صرف اس بات پر ہے کہ اس کے اندر اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو اور اس کے اندر عدالتوں میں فیصلے اسلامی شریعت کے مطابق نہ ہوں ۔ ایسے مالک کو ایک مسلمان اور ایک اسلامی جماعت کے نقطہ نظر سے دارالحرب کہا جائے گا ۔

مسلم معاشرہ وہ ہوتا ہے جو دارالاسلام میں قائم ہو ‘ اپنے درج بالا مفہوم کے مطابق ۔۔۔۔۔ اور یہ اسلامی معاشرہ جو اسلامی منہاج کے مطابق ہو ‘ جس پر شریعت اسلامی کی حکمرانی ہو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس میں لوگوں کی جانوں کو تحفظ دیا جائے ‘ اس میں لوگوں کے اموال کو تحفظ دیا جائے ‘ اس کے نظام مملکت کو بچایا جائے اور اس میں اور صرف اس میں ان مجرموں پر یہ منصوص سزائیں جاری کی جائیں جن کا ذکر ان آیات میں ہوگا اور جو ان لوگوں کے خلاف نافذ ہوں جو لوگوں کی جان ‘ مال اور مملکت میں خلل انداز ہو رہے ہوں ۔ اس درس اور اس کے علاوہ دوسری قرآنی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور صاحب فضیلت معاشرہ ہوگا ۔ اس میں عدل اور آزادیاں ہوں گی ۔ اس معاشرے میں روز گار اور ضروریات زندگی کی ضمانت ہوگی چاہے کوئی کام کرنے پر قادر ہو یامعذور ہو ۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہوگا جس میں بھلائی پر آمادہ کرنے والے عوامل زیادہ ہوں گے اور برائی پر آمادہ کرنے والے فیکٹر بہت ہی کم ہوں گے ۔ اس لئے ایسے معاشرے کا ان تمام لوگوں پر حق ہوگا جو اس کے اندر رہتے ہیں اور اس سے نفع اندوز ہوتے ہیں کہ وہ اس معاشرے کی دل و جان سے حفاظت کریں اور وہ دوسرے باشندگان ملک کے تمام مالی ‘ جانی ‘ عزت کے اور اخلاق کے حقوق کی رعایت و حفاظت کریں ۔ یہ تمام باشندے اس دارالاسلام کی حفاظت کریں جس میں وہ صحیح وسالم اور امن وامان سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ جس میں ان کو مکمل سیکورٹی حاصل ہے ‘ جس میں ان کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں اور جس میں ان کو تمام خصائص انسانی کے مراتب حاصل ہیں ‘ جس میں ان کو تمام سوشل اور اجتماعی حقوق حاصل ہیں بلکہ تمام باشندوں کا فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی دارالاسلام کے اس نظام کے مقابلے میں بغاوت پر اتر آتا ہے تو وہ ظالم ‘ گناہ گار ‘ شرپسند اور تخریب کار ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے ، لیکن اس میں بھی اسے یہ حقوق دیئے گئے ہیں کہ کسی کو محض ظن اور شب ہے کی بان پر نہ پکڑا جائے اور یہ اصول اس قانون پر بھی لاگو ہوگا کیونکہ شبہات کی وجہ سے حدود ساقط ہوجاتے ہین۔

رہا دارالحرب جس کی تعریف اوپر کردی گئی ہے تو وہ اور اس کے باشندے اس بات کے مستحق ہی نہیں ہیں کہ ان کو اسلامی شریعت کے اندر نافذ کردہ سزاؤں کا فائدہ دیا جائے ‘ اسلئے کہ وہاں تو سرے سے شریعت کا نفاذ ہی نہیں ہوتا۔

نہ یہ معاشرہ اسلام کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے ۔ پھر یہ دارالحرب ان مسلمانوں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرتا جو دارالاسلام میں رہتے ہیں اور جو اپنے ہاں اسلامی شریعت کو نافذ کرتے ہیں ۔ ان دارالکفر اور دارالحرب والوں کے نزدیک مسلمانوں کی جان ومال مباح ہے ۔ اس لئے اسلام کے نزدیک ایسے لوگوں کا کوئی احترام نہیں ہے الا یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی کا کوئی عہد ہو ‘ اور ان کے اور دارالاسلام والوں کے نزدیک معاہدے طے ہوجائیں ۔ اسلامی شریعت یہ تمام سہولیتیں جو دارالاسلام میں مسلمانوں کو حاصل ہیں ان افراد کو بھی فراہم کرتی ہے جو دارالحرب سے دارالاسلام کو ہجرت یا سفر کرکے آتے ہیں ۔ جب وہ دارالاسلام میں معاہدہ امن کے ساتھ داخل ہوجائیں اور اس میں عہد کی مدت طے ہو اور وہ دارالاسلام کے حدود کے اندر آجائیں جس کا حاکم مسلمان ہو اور مسلمان حاکم وہی ہوتا ہے جو دارالاسلام میں شریعت حقہ کو نافذ کرے ۔