Vous lisez un tafsir pour le groupe d'Ayahs 43:26 à 43:28
واذ قال ابراهيم لابيه وقومه انني براء مما تعبدون ٢٦ الا الذي فطرني فانه سيهدين ٢٧ وجعلها كلمة باقية في عقبه لعلهم يرجعون ٢٨
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِۦٓ إِنَّنِى بَرَآءٌۭ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ٢٦ إِلَّا ٱلَّذِى فَطَرَنِى فَإِنَّهُۥ سَيَهْدِينِ ٢٧ وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةًۭ فِى عَقِبِهِۦ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ٢٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 232 ایک نظر میں

قریش کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ اور یہ دعویٰ برحق تھا۔ پھر ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ ملت ابراہیمی پر ہیں اور ان کی یہ بات غلط تھی۔ حضرت ابراہیم نے تو عقیدۂ توحید کا اعلان نہایت کھل کر کیا تھا۔ جس کے اندر کوئی التباس اور پیچیدگی نہ تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے باپ کو چھوڑا ، اپنی قوم کو چھوڑا ، اس سے پہلے ان کو قتل کرنے اور جلانے کی سعی کی گئی۔ اور ان کی شریعت بھی عقیدۂ توحید پر قائم تھی اور اسی کی انہوں نے اپنی اولاد کو تاکید کی تھی۔ اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور شریعت میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا۔

اس سبق میں قرآن اپنے مخاطبین کو خود ان کی تاریخ کی سیر کراتا ہے تا کہ ان کے دعوے کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ اس کے بعد رسالت محمدی پر ان کے اعتراضات کو پرکھا جا رہا ہے۔

وقالوا لو لا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم (43 : 31) “ کہتے ہیں یہ قرآن دو شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نازل نہیں ہوا ”۔ ان کے اس قول کی تردید کی جاتی ہے کہ ان کی سوچ میں بہت بڑی کجی ہے۔ کیونکہ اسلام جن قدروں پر مبنی ہے ، ان کے اعتبار سے یہ سوچ ہی غلط ہے کہ دعوت اسلامی کی زمام کسی بڑے آدمی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہ جھوٹی قدریں ہیں اور یہی اسلام کی طرف آنے میں ان کے لئے رکاوٹ بن رہی ہیں۔ انہی باطل سوچوں نے ان کو حق و ہدایت سے دور رکھا ہوا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ان کو یہ اطلاع بھی کردی جاتی ہے کہ اس گمراہی کی اصل علت اور وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ اس درس کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کی طرف آپ کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ ان سے منہ موڑ لیں ، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ، آپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی اندھے کو بینا کردیں ، کسی بہرے کو شنوائی دے دیں۔ یہ اندھے اور بہرے ہوگئے ہیں ۔ اور ان کو ضرور سزا ملے گی خواہ آپ کی زندگی میں اللہ ان سے انتقام لے یا آپ کے بعد وہ اس سے دو چار ہوں۔ آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ کو جو پیغام دیا گیا ہے ، آپ اس کو مضبوطی سے پکڑیں ۔ یہی پیغام تمام انبیاء کو دیا گیا تھا۔ سب کلمہ توحید لے کر آئے تھے۔

وسئل من ارسلنا ۔۔۔۔۔ یعبدون (43 : 45) “ تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ، ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کئے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے ” ۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا ایک حلقہ پیش کیا جاتا ہے۔ فرعون کلیم کے قصے کا وہ حصہ جس میں وہی جھوٹی قدریں سامنے آتی ہیں جو اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پیش کیں گویا یہ ایک تیار استدلال ہے ، بنا بنایا اور تاریخ کے ہر مرحلے میں اسے دہرایا جاتا ہے۔

٭٭٭٭

درس نمبر 232 تشریح آیات

26 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 56

آیت نمبر 26 تا 28 دعوت توحید جسے یہ لوگ انوکھا سمجھتے ہیں ، یہ دراصل ان کے باپ کی دعوت ہے ، یہ وہ دعوت ہے جو انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے سامنے پیش کی اور ان کے باطل عقائد کی تردید کی۔ اور اس میں انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے موروثی عقائد کو ترک کیا اور موروثی راہ پر رسم نہ چلے۔ محض اس لیے کہ آباء و اجداد یہی کچھ کرتے چلے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ، اس معاملے میں ان کے مقابلے میں برات کے اظہار میں کوئی لگی لپٹی بات نہیں کی بلکہ نہایت ہی صاف الفاظ اور شفاف عمل میں ان کی تردید کی ، جس طرح قرآن نقل کرتا ہے :

اننی براء مما تعبدون (43 : 26) الا الذی فطرنی فانہ سیھدین (43 : 27) “ بیشک میں ان سے بری الذمہ ہوں جن کی تم بندگی کرتے ہو ، میرا تعلق اس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا وہی میری رہنمائی کرے گا ”۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اظہار برات اور پھر اس اعلان سے کہ میں صرف اس خدا کی بندگی کروں گا جو میرا خالق ہے ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمرودی معاشرہ بھی بالکل خدا کا منکر نہ تھا بلکہ وہ اللہ کے سوا اور الہٰوں کو اللہ کے ساتھ شریک قرار دیتے تھے۔ اور ان کی بندگی کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ان سے برات کا اظہار کیا۔ اس لا تعلقی کے اظہار سے آپ نے خالق کائنات کو مستثنیٰ لیا۔ اور اللہ کی یہاں آپ نے وہ صفت بیان جو صرف اللہ کے لئے عبادت کا استحقاق ثابت کرتی ہے۔ یہ کہ وہ پیدا کرنے والا ہے۔ لہٰذا بندگی اور حکم بھی اسی کا چلنا چاہئے اور آپ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اللہ انہیں ہدایات دے گا کہ وہ کیا کریں کیونکہ خالق اپنی مخلوق کی راہنمائی کا انتظام بھی کرتا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کس طرح ہدایت دے۔ یہ کلمہ جس کے اوپر زندگی قائم ہے جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے اور جس پر شہادت دے رہی ہے ، یہ حضرت ابراہیم نے کہا۔

وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ لعلھم یرجعون (43 : 28) “ اور ابراہیم یہی کلمہ پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا تا کہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ”۔ اس کرۂ ارض پر کلمہ توحید کے اقرار اور رواج میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا بڑا حصہ ہے۔ آپ ہی کے بعد یہ کلمہ تمام نسلوں میں رائج ہوا۔ اور یہ رواج آپ کی اولاد کے ذریعے ہوا۔ آپ کی اولاد سے بیشمار رسول بھیجے گئے۔ تین رسول تو اولو العزم رسول تھے۔ حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺ ۔ آج دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں ، جو مختلف بڑے ادیان کے پیروکار ہیں جو اپنے باپ کے کلمہ توحید پر کاربند ہیں۔ اس نے اس کلمے کو اپنی اولاد میں باقی رکھا۔ اگرچہ ان میں سے بھی گمراہ ہونے والے گمراہ ہوئے لیکن یہ کلمہ باقی رہا۔ کبھی یہ بالکل نا پید نہیں ہوا ، اور اس کے قدم مضبوط رہے ، کبھی کسی نے اسے جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا اور نہ اس کے ساتھ باطل کا امتزاج ہوا ہے تا کہ لوگ اللہ کی طرف لوٹیں اور اسے سینے سے لگائیں۔

ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے بھی کلمہ توحید سے انسانیت واقف تھی لیکن زمین کے اوپر کلمہ توحید کو قرار و ثبات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نصیب ہوا۔ آپ سے پہلے حضرت نوح ، حضرت ہود ، حضرت صالح اور شاید حضرت ادریس (علیہ السلام) نے کلمہ توحید پیش کیا لیکن ان رسولوں کو ایسے جانشین نہ ملے جو ان کے بعد کلمہ توحید کو باقی رکھتے اور اس کے مطابق زندگی گزارتے اور جو اس کے لئے زندہ رہتے۔ لیکن جب یہ کلمہ حضرت ابراہم (علیہ السلام) نے پیش فرمایا تو آپ کے بعد اس کا تسلسل قائم ہوگیا۔ اور رسولوں کا بھی ایک غیر منقطع سلسلہ چل نکلا۔ چناچہ آپ کی اولاد میں سے آخری بیٹے اور آپ کے ساتھ زیادہ مشابہ حضرت محمد خاتم النبین ﷺ تشریف لائے ، اور انہوں نے کلمہ توحید کو اس کی کامل اور شامل صورت میں پیش کیا جس نے پوری زندگی کو اس کلمے کے ارد گرد گمادیا۔ اور انسان کی ہر سرگرمی میں اس کو اثر انداز کردیا۔

یہ تھی توحید کی کہانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ادھر جن کے بارے میں اہل قریش یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں اور اس کلمے کو ابراہیم (علیہ السلام) سے ادھر جن کے بارے میں اہل قریش یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں اور اس کلمے کو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں وراثت میں باقی رکھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ادھر یہ کلمہ نسلاً بعد نسل نقل ہوتا رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرنے والے اس کلمے کے مقابلے میں کیا رد عمل اختیار کرتے ہیں۔

زمانے گزر گئے۔ اللہ نے نسلاً بعد نسل ان کو زندگی کے خوب سازو سامان دئیے ، بہت زیادہ دور چلے جانے کے بعد انہوں نے ملت ابراہیمی کو بھلا دیا۔ اور ان عربوں کے اندر کلمہ توحید انوکھا ہوگیا۔ اب جبکہ حضرت محمد ﷺ آئے ہیں تو انہوں نے اس کا بہت ہی برا استقبال کیا اور اسے بھی اہل زمین اور دنیا پرستوں کی قدروں کے پیمانوں سے ناپنا شروع کردیا اور خود ان کے پیمانے بھی بدل گئے۔