Vous lisez un tafsir pour le groupe d'Ayahs 26:46 à 26:48
فالقي السحرة ساجدين ٤٦ قالوا امنا برب العالمين ٤٧ رب موسى وهارون ٤٨
فَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَـٰجِدِينَ ٤٦ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا بِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ٤٧ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَـٰرُونَ ٤٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فالقی السحرۃ سجدین (26 : 36) ” قالوا امنا برب العلمین (26 : 38) رب موسیٰ وھرون (26 : 38) ” ، ۔ “ ایک ہی لمحہ قبل وہ کرایہ کے لوگ تھے اور فرعون کے ساتھ وہ اپنی مہارت اور اجرت کا مول تول کر رہے تھے۔ نہ وہ کوئی نظریہ رکھتے تھے اور نہ ان کے پیش نظر کوئی نصب العین تھا۔ لیکن اب ان کے دلوں تک جو سچئای پہنچ گئی اس نے ان کو پوری طرح بدل دیا۔ اس واقعہ نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی دینی دنیا میں ایک زلزلہ پیدا ہوگیا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو سچائی دیکھی وہ ان کے دلوں کے تہہ تک پہنچ گئی۔ اس نے ان کے دل پر تمام پردے زائل کردیئے اور گمراہی کی جو تہیں ان کے دلوں پر جمی ہوئی تھیں ، وہ صاف ہوگئیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسویٰ صرف جادوگر ہوتے تو ان کی رسیاں اور انڈے کہیں بھی نہ جاتے ان چیزوں کے اندر ان کے جادو سے ہلچل تو پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ غائب نہیں ہو سکتیں۔

چناچہ ان کا دل صاف ہوگیا اور ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ بغیر ارادہ کے سجدے میں گر جائیں۔ ایمان کا اظہار کردیں اور صاف صاف اختیار کردیں۔

امنا برب العلمین (26 : 38) رب موسیٰ وھرون (26 : 38) ” مان گئے ہم رب العالمین کو جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ “ انسانی دل کو دنیا بھی عجیب ہے۔ ایک لمحے میں اس کی دنیا بدل سکتی ہے ۔ ایک نظر میں اس میں انقلاب آ جات ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بہت ہی سچ فرمایا۔ ” جو دل بھی ہے وہ رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے ، اگر اللہ چاہے تو اسے سیدھا رکھے اور اگر چاہے تو گمراہ کر دے (ٹیڑھا) کر دے۔ “ یوں جادوگر جو اجر کے طلبگار اور کرایہ کے لوگ تھے وہ برگزیدہ مومن بن گئے اور یہ فرعون اور اس کے جبار وقہار کے ساتھیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور فرعون کے جمع کردہ عوام الناس کے جم کا بھی انہوں نے کوئی لحاظ نہ رکھا۔ وہ ان نتائج کی رپواہ کئے بغیر ہی مسلمان ہوگئے جن کی توقع ان کو جابر و ظالم فرعون سے تھی۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ پر ایمان لانا اور اس طرح علی الاعلان لانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اب ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کون کیا کہتا ہے۔

حالات نے اچھا جو پلٹا کھایا ، ظاہر ہے کہ فرعون اور اس کے سرداروں پر تو بجلی گر گئی۔ کیونکہ لوگ سب جمع تھے۔ ان کو خود فرعون اور اس کے اہلکاروں نے جمع کیا تھا کہ تا کہ وہ موسیٰ اور جادوگروں کا بھی مقابلہ دیکھ لیں۔ انہوں نے عوام کے اندر یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ موسیٰ اسرائیلی ایک بہت بڑا جادو لے کر آیا ہے اور وہ جادو کے زور پر ہماری حکومت کو ختم کر کے اپنی قوم کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہ حکومت نے بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر کے اس کے مقابلے کا انتظام کیا ہے۔ ہمارے جادوگر اس پر غالب ہوں گے اور اس کا قلع قمع کردیں گے۔ یہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ موسیٰ اللہ کا نام لے کر آتا ہیں۔ وہ فوراً حضرت موسیٰ کی رسالت کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے سچے نبی ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب کو مانتے ہیں۔ یہ فرعون کی بندگی کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکتے ہیں جبکہ ایک لمحہ قبل وہ فرعون کے سپاہی اور خدمت گار تھے اور اس کی جانب سے انعام کے طلبگار تھے اور اپنا کام انہوں نے عزت فرعون کے عنوان سے شروع کیا تھا۔

حالات کے اندر یہ اچانک انقلاب فرعون کے اقتدار کے لئے خطرہ تھا کیونکہ اب وہ افسانہ ہی ختم ہوگیا جس کی اساس پر فرعون کا اقتدار قائم تھا یہ کہ فرعون الہہ ہے بایں معنی کہ وہ خدا کی اولاد میں سے ہے اور یہ جادوگر دین فرعون کے مذہبی راہنما تھے کیونکہ اس دور میں تمام کاہن جادوگر ہوتے تھے اور یہ تمام جادوگر اسی رب العالمین پر ایمان لے آئے ہیں جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے ، جہاں تک جمہور عوام کا تعلق ہے وہ ہمیشہ مذبہی راہنمائوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ وہ عقائد انہی مذہبی راہنمائوں سے لیتے ہیں۔ اب فرعون کے اقتدار کے لئے وجہ جواز اور سہارا صرف قوت رہ گئی اور یہ دنیا کا قاعدہ ہے کہ محض قوت کے بل بوتے پر سکی اقتدار کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔

ہمیں چاہئے کہ ہم ذرا اچھی طرح اندازہ کرلیں کہ اس صورتحال سے فرعون کس قدر بوکھلایا ہوگا اور اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے حاشیہ نشینوں کی حالت کیا ہوگی کہ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ جادوگر ایمان لے آئے اور ایسا ایمان کہ ایمان لاتے ہی وہ رب العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اعتراف حق کر کے اللہ کی طرف یکسو ہوجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر فرعون پاگل ہوجاتا ہے۔ وہ بوکھلاہٹ میں اعلان کردیتا ہے کہ تم سازشی ہو ، تمہیں سخت ترین سزا دی جائے گی۔ پہلے تو اس نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے لئے حصول اقتدار کی سازش کر رہے ہیں۔