۞ يا ايها الذين امنوا ان كثيرا من الاحبار والرهبان لياكلون اموال الناس بالباطل ويصدون عن سبيل الله والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله فبشرهم بعذاب اليم ٣٤
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍۢ ٣٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

اس سورة کے اس سبق کی آخری یونٹ پر ہم پہنچ چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب اللہ کے حرا کیے ہوئے کو کس طرح حرام نہیں کرتے۔ جبکہ اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ اپنے احبارو رہبان کو رب سمجھتے ہیں۔ اللہ کے سوا رب قرار دیتے ہیں اور جس کی تفسیر رسول اللہ نے یہ فرمائی تھی کہ یہ اہل کتاب احبارو رہبان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ بتایا گیا کہ یہ احبارو رہبان اللہ کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے۔ اللہ کے حلال کردہ کو حلال نہیں سمجھتے۔

۔۔۔

آیت میں احبارو رہبان کے کردار کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عوام نے تو ان کو اللہ کے علاوہ رب بنا رکھا ہے۔ اور یہ لوگ نتیجتاً لوگوں کے لیے حلال و حرام کے قوانین بنانے ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں کے لیے بطور رب پیش کیا ہے اور لوگوں نے اسے قبول کیا ہے۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے پیتے ہیں۔ اور لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں۔

لوگوں کے اموال کھانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ جو ابھی تک رائج ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ فیس ہے جو حرام کو حلال قرار دینے یا حلال کو حرام قرار دینے کے عوض لی جاتی تھی اور اس قسم کے فیصلے بالعموم مالداروں کے حق میں ہوتے تھے یا بادشاہوں کے حق میں جاری ہوتے تھے۔ ان میں وہ فیس بھی شامل ہے جو مذہبی پیشوا ایک معترف گناہ سے لیتے تھے اور پھر اسے بخش دیتے تھے اور ان مذہبی پیشواؤں کے زعم میں وہ یہ اختیارات ازروئے شریعت رکھتے تھے اور اس میں مشہور مسئلہ رہا ہے کہ وہ اسے حلال قرار دیتے تھے۔

اس میں وہ اموال بھی شامل ہیں جو وہ لوگوں سے دین حق کے مقابلے کے لیے لیتے تھے۔ احبار اور رہبان اسقف اور دوسرے مذہبی پیشوا صلیبی جنگوں کے لیے لاکھوں روپے جمع کرتے رہے ہیں اور اب وہ مستشرقین اور مبشرین کے لیے اربوں روپے جمع کرکے عالم اسلام میں خرچ کرتے ہیں ، یوں وہ لوگوں کو گمراہ کرکے اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔

قرآن کریم کی درج ذیل آیت بڑے گہرے غور و فکر کی مستحق ہے۔ اس میں بات کس قدر عدل و انصاف کے ساتھ کی گئی ہے۔

اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ یعنی احبارو رھبان میں سے بیشتر لوگ۔ اس سے ان لوگوں کی وہ قلیل تعداد نکل جاتی ہے جو اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرتی۔ اس لیے کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور جماعتوں میں اچھے لوگوں کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ اور ذات باری تعالیٰ بہرحال ہر کسی کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔

اکثر احبارو رہبان لوگوں سے حاصل کردہ اموال کو جمع کرتے تھے۔ یہود و نصاری کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ لوگوں کے اموال کنیسوں میں جمع کرتے اور ان کے تکیوں پر بےحد شکرانے جمع ہوتے تھے۔ اور بعض اوقات مذہبی لیڈروں کے پاس بادشاہوں اور راجوں وہ مہاراجوں کے مقابلے میں بھی زیادہ دولت جمع ہوجاتی تھی۔

اس لیے یہاں سیاق کلام میں قیامت کے دن ان کی اس جمع کردہ دولت ہی کو ان کے لیے باعث عذاب بنایا ہے اور یہی سزا ان تمام لوگوں کو ملے گی جو دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور اس بات کی تصویر کشی نہایت ہی خوفناک انداز میں کی گئی ہے :

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35) " دردناک سزا کی خوشخبری دو ۔ ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں۔ اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا ، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو "

تعذیب کے اس منظر کی یہاں بہت سی تفصیلات دے دی گئی ہیں اور تعذیب کے ابتدائی مراحل سے لیکر آخری مراحل کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے تاکہ حس و خیال میں یہ منظر اچھی طرح بیٹھ جائے لہذا تعذیب کی تفصیلات دینا با مقصد ہے۔

والذین یکنزون الذھب والفضۃ " دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرک رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے " اس کے بعد سیاق کلام پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے اور اجمال اور ابہام کے بعد تفصیلات دوسری آیت میں دی جاتی ہیں۔