واخرون مرجون لامر الله اما يعذبهم واما يتوب عليهم والله عليم حكيم ١٠٦
وَءَاخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ ٱللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ ١٠٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 106 وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَاِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْہِمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ یہ ضعفاء میں سے دوسری قسم کے لوگوں کا ذکر ہے ‘ جن کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا۔ یہ تین اصحاب رض تھے : کعب بن مالک ‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع رض ‘ ان میں سے ایک صحابی حضرت کعب بن مالک انصاری رض نے اپنا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جو کتب احادیث اور تفاسیر میں منقول ہے۔ مولانا مودودی رح نے بھی تفہیم القرآن میں بخاری شریف کے حوالے سے یہ طویل حدیث نقل کی ہے۔ یہ بہت سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد مدینہ کے اس معاشرے ‘ حضور ﷺ کے زیر تربیت افراد کے انداز فکر اور جماعتی زندگی کے نظم و ضبط کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ حیران کن بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ یہ تینوں حضرات سچے مسلمان تھے ‘ مہم پر جانا بھی چاہتے تھے مگر سستی کی وجہ سے تاخیر ہوگئی اور اس طرح وہ جانے سے رہ گئے۔ حضرت کعب رض بن مالک خود فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے میں بہت صحت مند اور خوشحال تھا ‘ میری اونٹنی بھی بہت توانا اور تیز رفتار تھی۔ جب سستی کی وجہ سے میں لشکر کے ساتھ روانہ نہ ہوسکا تو بھی میرا خیال تھا کہ میں آج کل میں روانہ ہوجاؤں گا اور راستے میں لشکر سے جاملوں گا۔ میں اسی طرح سوچتا رہا اور روانہ نہ ہوسکا۔ حتیٰ کہ وقت نکل گیا اور پھر ایک دن اچانک مجھے یہ احساس ہوا کہ اب خواہ میں کتنی ہی کوشش کرلوں ‘ لشکر کے ساتھ نہیں مل سکتا۔ جب رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے پیچھے رہ جانے والوں کو بلا کر باز پرس شروع کی۔ منافقین آپ ﷺ کے سامنے قسمیں کھا کھا کر بہانے بناتے رہے اور آپ ﷺ ان کی باتوں کو مانتے رہے۔ جب کعب رض بن مالک کی باری آئی تو حضور ﷺ نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا۔ ظاہر بات ہے کہ حضور ﷺ جانتے تھے کہ کعب رض سچے مؤمن ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے روکا تھا ؟ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ لوگ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر چھوٹ گئے ہیں ‘ اللہ نے مجھے بھی زبان دی ہے ‘ میں بھی بہت سی باتیں بنا سکتا ہوں ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ مجھے کوئی عذر مانع نہیں تھا۔ میں ان دنوں جتنا صحت مند تھا اتنا پہلے کبھی نہ تھا ‘ جتنا غنی اور خوشحال تھا پہلے کبھی نہ تھا۔ مجھے کوئی عذر مانع نہیں تھا سوائے اس کے کہ شیطان نے مجھے ورغلایا اور تاخیر ہوگئی۔ ان کے باقی دو ساتھیوں نے بھی اسی طرح سچ بولا اور کوئی بہانہ نہ بنایا۔ان تینوں حضرات کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ کوئی شخص ان تینوں سے بات نہ کرے اور یوں ان کا مکمل طور پر معاشرتی مقاطعہ social boycott ہوگیا ‘ جو پورے پچاس دن جاری رہا۔ حضرت کعب رض فرماتے ہیں اس دوران ایک دن انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے دوست سے بات کرنا چاہی تو اس نے بھی جواب نہ دیا۔ جب انہوں نے اس سے کہا کہ اللہ کے بندے تمہیں تو معلوم ہے کہ میں منافق نہیں ہوں تو اس نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ چالیس دن بعد حضور ﷺ کے حکم پر انہوں نے ابھی بیوی کو بھی علیحدہ کردیا۔ اسی دوران والئ غسان کی طرف سے انہیں ایک خط بھی ملا ‘ جس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کے ساتھی آپ پر ظلم ڈھا رہے ہیں ‘ آپ باعزت آدمی ہیں ‘ آپ ایسے نہیں ہیں کہ آپ کو ذلیل کیا جائے ‘ لہٰذا آپ ہمارے پاس آجائیں ‘ ہم آپ کی قدر کریں گے اور اپنے ہاں اعلیٰ مراتب سے نوازیں گے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی آزمائش تھی ‘ مگر انہوں نے وہ خط تنور میں جھونک کر شیطان کا یہ وار بھی ناکام بنا دیا۔ ان کی اس سزا کے پچاسویں دن ان کی معافی اور توبہ کی قبولیت کے بارے میں حکم نازل ہوا آیت 118 اور اس طرح اللہ نے انہیں اس آزمائش اور ابتلا میں سرخرو فرمایا۔ بائیکاٹ کے اختتام پر ہر فرد کی طرف سے ان حضرات کے لیے خلوص و محبت کے جذبات کا جس طرح سے اظہار ہوا اور پھر ان تینوں اصحاب رض نے اپنی آزمائش اور ابتلا کے دوران اخلاص و استقامت کی داستان جس خوبصورتی سے رقم کی ‘ یہ ایک دینی جماعتی زندگی کی مثالی تصویر ہے۔