آیت 3{ فِیْہَا کُتُبٌ قَـیِّمَۃٌ۔ } ”ان میں بڑے مضبوط احکام تحریر ہیں۔“ لفظ ”کتاب“ کے بارے میں قبل ازیں بھی متعدد بار واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ عام طور پر احکامِ شریعت کے لیے آتا ہے۔ تو پتا چلا کہ اللہ کے رسول ﷺ اور اللہ کی کتاب کا اکٹھا نام البیِّنہ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو قبل ازیں ہم لفظ ”ذِکْرًا“ کے حوالے سے سورة الطلاق میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ وہاں اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے : { قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا - رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ …} ”اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کردیا ہے۔ ایک رسول ﷺ جو اللہ کی آیات بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہاہے…“ گویا تعبیر اور تعریف definition کے اعتبار سے اَلْبَـیِّنَہ اور ذِکْرًا ہم معنی اصطلاحات ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح احکام کتاب کی صورت میں نازل کیے اور اس کتاب کی تفہیم وتعلیم کے لیے رسول ﷺ کو بھی مبعوث فرمایا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے وہ تمام احکام اس انداز میں کھول کر بیان فرما دیے کہ اب اس کے بعد ان مخاطبین کے پاس کفر و شرک کے ساتھ چمٹے رہنے اور ضلالت و گمراہی سے باز نہ آنے کا کوئی جو ازباقی نہیں رہا۔