شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 92:18 تا 92:20
الذي يوتي ماله يتزكى ١٨ وما لاحد عنده من نعمة تجزى ١٩ الا ابتغاء وجه ربه الاعلى ٢٠
ٱلَّذِى يُؤْتِى مَالَهُۥ يَتَزَكَّىٰ ١٨ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُۥ مِن نِّعْمَةٍۢ تُجْزَىٰٓ ١٩ إِلَّا ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ ٱلْأَعْلَىٰ ٢٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 18{ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَـہٗ یَتَزَکّٰی۔ } ”جو اپنا مال دیتا ہے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے۔“ یعنی مال خرچ کرتے ہوئے دنیاداری کا کوئی مفاد اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رض نے حضرت بلال رض کو آزاد کرانے کے لیے امیہ بن خلف کو جب منہ مانگی قیمت ادا کی تو اس پر امیہ خود بھی حیران رہ گیا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رض کے والد حضرت ابوقحافہ رض آپ رض فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے نے بھی آپ رض سے گلہ کیا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی طاقتور غلام پر کیوں نہ خرچ کی جو تمہارے کام بھی آتا ! اس زمانے میں اگر کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کراتا تھا تو وہ غلام زندگی بھر اسی شخصیت کے حوالے سے پہچاناجاتا تھا اور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اس کے تابع رہتا تھا۔ عرب رواج کے مطابق ایسے آزاد کردہ غلام کو متعلقہ شخصیت کا مولیٰ کہا جاتا تھا ‘ جیسے حضرت زید بن حارثہ رض اور حضرت ثوبان رض حضور ﷺ کے مولیٰ تھے۔ بہرحال مال خرچ کرنے کا یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ سے بالا ہے جن کی نظر ہر وقت دنیا کے مفادات پر رہتی ہے۔