فلم تقتلوهم ولاكن الله قتلهم وما رميت اذ رميت ولاكن الله رمى وليبلي المومنين منه بلاء حسنا ان الله سميع عليم ١٧
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِىَ ٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ١٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

روایات میں آتا ہے کہ اس مارنے سے وہ مارنا مراد ہے کہ حضور نے کنکریاں اور ریت ہاتھ میں لیں اور انہیں کفار کے لشکر کی طرف پھینکا اور حضور نے اس وقت یہ الفاظ کہے شاھت الوجوہ۔ شاھت الوجوہ۔ ان کے چہرے بد شکل ہوجائیں ، قبیح ہوجائیں۔ اور یہ آیت اور کنکریاں ان چہروں پر جا کر لگیں جن کا اس جنگ میں قتل ہونا مقدر تھا۔

لیکن اس آیت کا مفہوم عام ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بظاہر نبی ﷺ اور لشکر اسلام جو کچھ کر رہا تھا ، اس کے پیچے دست قدرت کام کر رہا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد آیت میں یہ فقرہ ہے : وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا۔ تاکہ مومنین کو اس آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے۔ یعنی تاکہ وہ مومنین کو آزمائش کا یہ موقعہ دے اور اس پر وہ اجر کے مستحق ہوجائیں جبکہ فتح تو اس نے لکھ دی تھی۔ گویا یہ کامیابی ہر حال میں مزید اجر کا باعث تھی ، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۔ یقینا اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ وہ تمہاری دعاؤں کو سن رہا تھا ، اور تمہارے حالات سے اچھی طرح با خبر تھا۔