undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

(آیت) ” قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّہِ حَتَّی إِذَا جَاء تْہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً قَالُواْ یَا حَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیْہَا (6 : 31)

” نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا ۔ جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ” افسوس ! ہم سے اس معاملے میں کیسی تقصیر ہوئی “۔ یقینا یہ عظیم خسارہ ہوگا ‘ دنیا میں انہوں نے گھٹیا اور منچلے در کے کی زندگی گزاری اور آخرت میں تو حال وہ ہوگا جس کا تذکرہ ہوا ۔ اب اچانک وہ گھڑی آپہنچی جس کی توقع ان غفلت شعاروں کو نہ تھی اور جو اسے شمار ہی میں نہ لاتے تھے ۔ لیکن ” جب وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ’ ؓ اجمعینافسوس کہ اس معاملے میں ہم سے کیسی تقصیر ہوئی ۔ “ ۔

اب ان لوگوں کا اگلا منظر ملاحظہ فرمائیں ۔ یہ لوگ یوں نظر آتے ہیں جس طرح بار برداری کے ایسے جانور جس پر بھاری بوجھ لدا ہو ۔

(آیت) ” وَہُمْ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَہُمْ عَلَی ظُہُورِہِمَْ (31)

” اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ “ بلکہ

بلکہ جانور تو ان کے مقابلے میں بہتر ہیں کیونکہ یہ بار برداری سے متعلق ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں لیکن یہ لوگ جرائم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ جانور اپنے بوجھ کو منزل تک پہنچا کر آرام کرتے ہیں اور یہ لوگ گناہوں کو بوجھ اٹھائے ہوئے وارد جہنم ہوں گے اور ان کو تو مجرم قرار دے کا وہاں بھیجا جائے گا ۔

(آیت) ” أَلاَ سَاء مَا یَزِرُونَ (31) ” دیکھو کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔ “ اب اس پیراگراف کا آخری بند آتا ہے ‘ خسارے اور ہلاکت کے اس منظر میں اور خوف وہراس کے ان حالات میں بات ختم ہوتی ہے ۔ اللہ ترازو میں ایک طرف دنیا کا وزن ہے اور دوسری جانب آخرت کی قدر و قیمت رکھی جاتی ہے اور اقدار کو یوں تولا جاتا ہے :

تجربه Quran.com خود را به حداکثر برسانید!
هم اکنون تور خود را شروع کنید:

۰%