فاذا بلغن اجلهن فامسكوهن بمعروف او فارقوهن بمعروف واشهدوا ذوي عدل منكم واقيموا الشهادة لله ذالكم يوعظ به من كان يومن بالله واليوم الاخر ومن يتق الله يجعل له مخرجا ٢
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍۢ وَأَشْهِدُوا۟ ذَوَىْ عَدْلٍۢ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِۦ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا ٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

فاذا بلغن ............................ قدرا (56 : 3) (56 : 2۔ 3) ”” اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو اور ، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو ، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہوجاﺅ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں اور (اے گواہ بننے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے “۔

یہ دوسرا مرحلہ اور اس کا حکم ہے۔ عدت پوری ہوجاتی ہے ، اور جب تک عورت عدت سے خارج نہیں ہوجاتی ، خاوند کو رجوع کا حق رہتا ہے اور محض رجوع کرنے سے وہ اس کی بیوی بن جاتی ہے۔ یاد رہے کہ عدت کی مختلف میعادیں ہم نے پہلے بتادی ہیں۔ یہ ہے امساک یعنی روک لینا۔ یا اگر وہ (دوسری یا تیسری) طلاق نہیں دیتا اور عورت بائن ہوجاتی ہی یعنی عورت ایک یا دوطلاقوں ہی سے جدا ہوجاتی ہے تو پھر وہ آزادہ ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اگر خاوند چاہے تو اس کی مرضی سے جدید نکاح کرسکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع کرتا ہے یا عورت کو جدا کرتا ہے ، حکم یہ ہے کہ اس کے ساتھ معروف طریقے کے مطابق برتاﺅ کرے۔ یہ بھی منع ہے کہ اسے محض تنگ کرنے کے لئے رجوع کرے۔ مثلاً یہ کہ عورت کو ایک طلاق دے۔ پھر وہ پوری عدت گزارنے سے قبل رجوع کرے ، پھر اس کو طلاق دے اور پھر وہ تین مہینے کی عدت شروع کرے اور ختم ہونے سے قبل پھر رجوع کرے اور پھر طلاق دے دے۔ یوں اس کی عدت نو ماہ تک چلی جائے۔ یہ ہے عورت کو محض اذیت دینا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رکھنا ہے تو رجوع کرے۔ اور اس طرح بھی نہ ہو کہ رجوع کرکے اسے معلق رکھ دے کہ وہ بےچاری مالی تاوان دینے پر مجبور ہوجائے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس وقت عرب معاشرہ میں ایسی صورتیں ہورہی تھیں اور ہمیشہ ایسا ہوتا ہے جب انسان دلوں سے اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔ معاشرت اور جدائی دونوں حالتوں میں خوف خدا ہی بہترین ضامن ہوتا ہے۔ نیز عورت کو جدا کرتے وقت سب وشتم ، سختی ، سخت کلامی یا مارپیٹ معروف طریقہ نہیں ہے۔ معروف طریقہ یہ ہے کہ شرافت سے رخصت کیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کو پھر ایک جگہ رہنا پڑے۔ اور اس صورت میں بری یادیں بیچ میں حائل نہ ہوں۔ اس طرح بری اور ناخوش گوار یادیں ، یہ برے الفاظ یا طنز وتشنیع دوبارہ تعلقات قائم ہونے کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ یہ اسلام کا عظیم تادہی سبق ہے کہ ایسے مشکل اور تلخ حالات میں بھی انسان کو شریفانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

ہاں اب جدائی ہو یا رجوع دونوں حالات میں شہادت کا قیام ضروری ہے۔ دو عادل گواہ اس پر قائم ہوں تاکہ شک کسی معاملے میں نہ ہو کہ لوگوں کو طلاق کے بارے میں تو معلوم ہو اور رجوع کرنے کے بارے میں معلوم نہ ہو۔ لوگوں میں شکوک پھیل جائیں اور لوگ باتیں بنائیں کہ فلاں کی بیوی تو مطلقہ ہے۔ جبکہ اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ میاں بوی کے متعلق لوگوں کے دل بھی صاف ہوں اور ان کی زبانیں بھی صاف ہوں۔ فقہاء کی اکثریت کا خیال ہے کہ رجوع یا فراق کے لئے شہادت کا قیام ضروری نہیں۔ بعض فقہاء اسے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن دونوں کا خیال یہی ہے کہ شہادت ضرور قائم کی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ اور لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ نہ ملے۔ چناچہ اس بیان کے بعد متعدد ہدایات دی جاتی ہیں اور یاد دہانیاں کرائی جاتی ہیں :

واقیموا ................ للہ (56 : 2) ” اور شہادت قائم کرو اللہ کے لئے “۔ کیونکہ یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ اور اس میں اللہ کے لئے شہادت دینا گواہ پر لازم ہے۔ اللہ اس کے قیام کا حکم دیتا ہے۔ وہی اس کی ادائیگی کا بھی حکم دیتا ہے۔ اور اس پر اجر بھی وہ دے گا۔ اس میں معاملہ خدا کے ساتھ ہے ، نہ خاوند کے ساتھ ، نہ بیوی کے ساتھ ، اور نہ لوگوں کے ساتھ ہے۔

ذلکم ........................ الاخر (56 : 2) ” یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو “۔ ان آیات کے مخاطب مومنین تھے اور وہ سب کے سب اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ اللہ ان کو کہتا ہے کہ یہ بہت ہی اہم معاملات ہیں۔ اگر انہوں نے سچے دل سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے تو پھر انہیں ان احکام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ ان کے ایمان کے لئے معیار تصور ہوگا اور دعوائے ایمان کا یہ نہ پیمانہ ہوگا۔