لقد كان لكم فيهم اسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الاخر ومن يتول فان الله هو الغني الحميد ٦
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌۭ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْـَٔاخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ ٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 6{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} ”تمہارے لیے یقینا ان کے طرزِعمل میں ایک بہت اچھا نمونہ ہے“ لیکن یہ نمونہ اور اسوہ فائدہ مند کس کے لیے ہوسکتا ہے ؟ { لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ } ”اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو۔“ بالکل یہی الفاظ سورة الاحزاب میں حضور ﷺ کے اسوہ کے حوالے سے آئے ہیں : { لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔ } یعنی حضور ﷺ کی شخصیت اور سیرت یقینا اسوہ کاملہ ہے ‘ لیکن اس سے مستفیض صرف وہی لوگ ہو سکیں گے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہوں۔ { وَمَنْ یَّـتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۔ } ”اور جو کوئی منہ موڑ لے تو یقینا اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں خود ستودہ صفات ہے۔“