لا يقاتلونكم جميعا الا في قرى محصنة او من وراء جدر باسهم بينهم شديد تحسبهم جميعا وقلوبهم شتى ذالك بانهم قوم لا يعقلون ١٤
لَا يُقَـٰتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِى قُرًۭى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَآءِ جُدُرٍۭ ۚ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌۭ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًۭا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌۭ لَّا يَعْقِلُونَ ١٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

لا یقاتلونکم ................ یعقلون (95 : 41) ” یہ کبھی اکٹھے ہوکر (کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے ، لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ یہ آپس میں مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ حال اس لئے ہے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں “۔

یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ منافقین اور اہل کتاب کی جو تصویر قرآن کریم نے کھینچی ہے وہ ابھی تک سچی ہے۔ منافقین اور کافر اہل کتاب جب بھی جہاں بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے ہیں تو یہ صورت سامنے ہوکر آگئی۔ حال ہی میں اخوان اہل ایمان اور یہودیوں کے درمیان فلسطین کی سر زمین پر جو جھڑپیں ہوئیں ان میں یہودی کسی جگہ بھی کھل کر میدان میں نہ آئے اور وہ اپنی آبادیوں اور حلقوں میں چھپ کر ہی لڑتے رہے اور جب کبھی وہ تھوڑی دیر کے لئے باہر آئے تو وہ چوہوں کی طرح پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ یوں نظر آتا تھا کہ شاید یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

سبحان اللہ .................... الخبیر ” ان حقائق کے علاوہ ان کی نفسیاتی جھلکیاں بھی عجیب ہیں۔

باسھم ................ شدید (95 : 41) ” یہ آپس کی مخالف میں شدید ہیں۔ “

تحسبھم ................ شتیٰ (95 : 41) ” تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو اور ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ “ جبکہ اس کے مقابلے میں مومنین کی حالت یہ ہے کہ وہ صدیوں کے آنے والے اپنے سابقہ لوگو کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ زمان ومکان کی دوریوں کے باوجود وہ ایمان کی رسی میں بندھے ہوئے ہیں۔ اور اس راہ میں جنس وطن اور خاندان رکاوٹ نہیں۔

ذلک بانھم ................ یعقلون (95 : 41) ” ان کا یہ حال اس لئے ہے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں۔ “ بعض اوقات ظاہری حالات دھوکہ دیتے ہیں۔ اہل کتاب آپس میں نہایت متحد ومتفق نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کے کفیل و مددگار نظر آتے ہیں اور حمایت بھی کرتے ہیں جس طرح منافقین ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتے ہیں۔ لیکن آسمان سے سچی خبر آتی ہے کہ کواکب ایسے نہیں ہیں جیسے نظر آتے ہیں۔ یہ محض ان کا خارجی منظر ہے کبھی کبھی ان کا یہ پردہ اتر جاتا ہے اور ان کی حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ یہ اندر سے کس قدر پھٹے ہوئے ہیں۔ اور قرآن کریم کی سچائی ثابت ہوتی ہے ۔ ایک ہی محاذ اور ایک ہی بلاک کے اندر وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں۔ دراصل یہ اپنی اپنی مصلحتوں کے لئے جدوجہد کررہے ہوتے ہیں۔ متضاد خواہشات رکھتے ہیں ، ان کی پالیسیاں باہم متصادم ہوتی ہیں۔ جب بھی مومنین نے صداقت سے کام کیا اور جب بھی ان کے دل اللہ کی ذات پر جممع ہوئے ہیں ، ان کے مقابلے میں کفار اور منافقین کے محاذ میں دراڑیں پڑگئی ہیں اور ان کے دل باہم بکھر گئے ہیں۔ اور بظاہر ان کا اتحاد خواب پریشاں بن گیا ہے اور جب بھی مومنین نے صبر کیا ہے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ کافروں کے درمیان جو ظاہری اتحاد اور بندش نظر آتی ہے وہ کھل گئی ہے اور ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے اور نظر آگیا ہے کہ ان کے درمیان شدید اختلافات ہیں ، شدید دشمنی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور دشمنیاں کررہے ہیں۔ اور ان کے دل ایک دوسرے سے بالکل جدا (شتی) ۔ ہیں۔

کفار اور منافقین کو مسلمانوں پر اس وقت غلبہ ہوجاتا ہے اور وہ نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں جب مسلمانوں کے دل ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت پھر وہ مسلمانوں کی تمثیل نہیں پیش کرتے جو سابقہ آیت میں ذکر ہوتی ہے بلکہ وہ نام کے مسلمان ہوتے ہیں ورنہ مومنین کے مقابلے میں منافقین کے بارے میں قرآن نے کہا۔

باسھم ................ شدید (95 : 41) ” آپ میں ان کی مخالفت شدید ہے “۔

تحسبھم ................ شتی (95 : 41) ” تم انہیں اکٹھے سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں “۔ قرآن کریم مومنین کے دلوں میں یہ حقیقت اچھی طرح بٹھاتا ہے تاکہ ان کے دلوں میں سے کافروں کا رعب نکل جائے۔ اور وہ ان سے نہ ڈریں کیونکہ ان کی حقیقت واقعی یہی ہے اور ایسی ہی ہے۔ اس لئے یہ مسلمانوں کی تربیت ہے اور یہ ایک ثابت حقیقت پر مبنی ہے۔ اگر مسلمان قرآنی تعلیمات کو سنجیدگی سے لیں تو ان کے دشمنوں کے معاملات ان کے لئے آسان ہوجائیں اور ان کے دل متحد ہوجائیں۔ اور ان کے مقابلے میں دنیا کی کوئی قوت ہی نہ ٹھہرسکے۔

جو لوگ اللہ پر صحیح طرح ایمان لاچکے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنی حقیقت اور اپنے دشمنوں کی طبیعت کو اچھی طرح سمجھیں۔ اور اگر انہوں نے اپنی حقیقت کو پالیا تو نصف معرکہ سر ہوگیا۔ اور اس حقیقت کی طرف قرآن کریم ایک واقعہ کی شکل میں اشارہ کرتا ہے اور یہ حقیقت قرآن نے بطور تمثیل اور سبق ذکر کی ہے۔ اور اس کے بعد پھر اس واقعہ کا تجزیہ کیا اور دلائل دیئے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے وہ واقعہ دیکھا تھا وہ عبرت پکڑیں۔ اور بعد کے آنے والوں کے لئے بھی وہ ایک عبرت آموز واقعہ بن جائے۔ قرآن نے یہ اشارہ ان لوگوں کے سامنے کیا ہے جو اس حقیقت سے باخبر تھے۔ واقعہ بنی نضیر پہلا واقعہ نہ تھا۔ اس سے قبل بنی قینقاع کا واقعہ ہوگیا تھا۔ اسی کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے :