آیت 28{ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ } ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول ﷺ محمد ﷺ پر ایمان لائو !“ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔۔۔ ایک تو یہ کہ یہاں ”یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا“ کا خطاب محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں سے ہے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جائو بلکہ صدق دل سے ایمان لائو اور اپنے ایمان کو پختہ کرو۔ حضور ﷺ پر سچے ایمان کا معیار آپ ﷺ کے اُسوئہ حسنہ کی پیروی ہے۔ سورة الاحزاب میں اہل ایمان سے فرمایا گیا : { لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} آیت 21 ”تمہارے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے“۔ تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے اسوہ کو دیکھو ‘ آپ ﷺ کی زندگی کے معمولات کو اپنے لیے مشعل راہ بنائو اور اپنی زندگیوں میں ویسا توازن پیدا کرو جیسا کہ آپ ﷺ کی زندگی میں توازن تھا۔ دیکھو ! حضور ﷺ نے ترک دنیا کا طریقہ نہیں اپنایا۔ آپ ﷺ نے نکاح کیے ‘ آپ ﷺ کی اولاد بھی ہوئی ‘ آپ ﷺ نے بھرپور زندگی گزاری ‘ اس کے باوجود آپ ﷺ نے اپنی زندگی کی تمام توانائیاں اور تمام صلاحیتیں غلبہ دین کی جدوجہد کی نذر کردیں۔ تم پر بھی لازم ہے کہ تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے اس اسوہ کی پیروی کرو۔ حضور ﷺ کے اسوہ کے حوالے سے یہ اہم نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جیسے آپ ﷺ کا اتباع ضروری ہے ‘ ویسے ہی اس اتباع میں توازن قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی نے حضور ﷺ کی تمام سنتوں کو اپنا لیا لیکن اتباع کرتے ہوئے ہر سنت کی مطلوبہ ترجیح اور اہمیت کا خیال نہ رکھا تو گویا وہ شخص حضور ﷺ کے اسوہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ اس نکتہ کو اس مثال سے سمجھیں کہ ایک طبیب نے آپ کو چند دوائیوں پر مشتمل ایک نسخہ لکھ کردیا۔ ان میں سے ایک دوائی کا مطلوبہ وزن ایک چھٹانک ہے ‘ دوسری کا ایک تولہ اور تیسری کا ایک ماشہ۔ اب اگر آپ اپنی پسند سے تولہ والی دوائی کا وزن ایک چھٹانک کرلیں اور چھٹانک والی دوائی کا وزن ایک تولہ کرلیں تو وہ نسخہ ‘ نسخہ شفا نہیں رہے گا ‘ نسخہ ہلاکت بن جائے گا۔ اس لیے صرف یہ اطمینان کافی نہیں کہ فلاں عمل آپ ﷺ کی سنت سے ثابت ہے ‘ بلکہ سنت و سیرت ِنبوی ﷺ کو اس اعتبار سے دیکھنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے اپنی زندگی مجموعی طور پر کس طرح گزاری۔ آپ ﷺ کی زندگی میں کس چیز کی کتنی اہمیت تھی ؟ آپ ﷺ نے کس عمل کو کتنا وقت دیا ؟ آپ ﷺ کی ترجیحات کیا تھیں ؟ آپ ﷺ کی ترجیحات میں بنیادی نوعیت کی چیزیں کون سی تھیں اور کون سی چیزوں کو ثانوی حیثیت حاصل تھی ؟ واضح رہے کہ اگر کسی نے حضور ﷺ کے اسوہ کا اتباع کرتے ہوئے اس اعتبار سے توازن برقرار نہ رکھا تو اس کا طرزعمل حضور ﷺ کے اسوہ کے اتباع کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ بن جائے گا۔ سیاق وسباق کے اعتبار سے آیت زیر مطالعہ کے اس حصے کا ایک مفہوم اور بھی ہے۔ پچھلی آیت میں چونکہ اہل کتاب کا ذکر ہے ‘ اس لیے اس حوالے سے اس خطاب کا رخ اہل کتاب کی طرف بھی ہے۔ اس پہلو سے اس فقرے کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے جن لوگوں کے اندر اپنے سابقہ ایمان کی کچھ رمق موجود ہے ‘ ان سے کہا جا رہا ہے کہ اے وہ لوگو جو پہلے سے اللہ پر ایمان رکھتے ہو اب اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کے آخری رسول ﷺ پر بھی ایمان لے آئو ! اگر تم ایسا کرو گے تو : { یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ } ”وہ تمہیں دہرا حصہ عطا کرے گا اپنی رحمت سے“ اہل کتاب کے ایسے لوگوں کے لیے ہم سورة القصص میں بھی یہ خوشخبری پڑھ چکے ہیں : { اُولٰٓـئِکَ یُـؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ } آیت 54 کہ اگر یہ لوگ نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لائیں گے تو انہیں دہرا اجر ملے گا۔ { وَیَجْعَلْ لَّــــکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ } ”اور وہ تمہیں ایسا نور عطا فرمائے گا جس کو لے کر تم چل سکوگے“ اس سے ایک تو وہ نور مراد ہے جس کا ذکر قبل ازیں آیت 12 میں ہوچکا ہے کہ ُ پل صراط سے گزرتے وقت تمہیں نور عطا کیا جائے گا جس کی مدد سے تم آسانی سے جنت میں پہنچ جائو گے۔ لیکن اس کے علاوہ اس سے مراد یہاں ایمان بالرسول اور اُسوئہ رسول ﷺ کے اتباع کا وہ نور بھی ہے جو اہل ایمان کو دنیوی زندگی میں بھی نصیب ہوتا ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے آیت کے الفاظ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیں اور سمجھ لیں کہ یہاں اصل زور emphasis ایمان بالرسول ﷺ پر ہے۔ اس حوالے سے آیت کے اس حصے کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر تم لوگ اُسوئہ رسول ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو تمہیں عملی زندگی میں ایک ایسی روشنی عطا ہوگی جو تمہیں کبھی بھٹکنے نہیں دے گی۔ خاص طور پر تم رہبانیت جیسی بدعت میں ملوث ہونے سے محفوظ رہو گے۔ چونکہ زیر مطالعہ آیات کا تعلق اقامت ِدین اور اقامت ِعدل و قسط کے مضمون سے ہے اس لیے سیاق مضمون کے اعتبار سے آیت کے اس حصے میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ اگر تمہیں نظام عدل و قسط کے قیام کی منزل پر پہنچنے کے لیے رہنمائی اور روشنی درکار ہے تو وہ تمہیں ایمان بالرسول ﷺ اور منہجِ انقلابِ نبوی ﷺ سے ملے گی۔ اور اگر تم نے اپنا یہ ایمان پختہ کرلیا اور منہج نبوی کو اپنا راستہ بنا لیا تو اس راستے پر ہم تمہیں ایسا نور عطا کریں گے جس کی راہنمائی میں تمہارے لیے کسی غلطی ‘ کوتاہی یا منزل سے بھٹکنے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔۔۔۔ چناچہ اگر ہمیں عدل و قسط کے قیام کے لیے انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرنی ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس جدوجہد میں اپنا تن من دھن کھپا دینے کی توفیق عطا فرمائے ! تو ہمیں اس کے لیے روشنی اور راہنمائی انقلابِ نبوی ﷺ کے منہج سے حاصل ہوگی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم حضور ﷺ کے راستے سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کریں گے تو کبھی منزل پر نہیں پہنچ پائیں گے : ؎خلافِ پیمبر ﷺ کسے راہ گزید کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید سورة المائدۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًاط } آیت 48 کہ ہم نے تم میں سے سب کے لیے علیحدہ علیحدہ شریعتیں اور علیحدہ علیحدہ منہاج بنائے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺ کا منہاج تلاش کریں اور جب تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ ”جا ایں جاست !“ جس جگہ کی ہمیں تلاش ہے وہ جگہ یہی ہے۔ یعنی ہمیں راہنمائی چاہیے ‘ ہدایت چاہیے یا غلبہ دین کی جدوجہد میں کامیابی چاہیے تو یہ سب کچھ ہمیں سیرت محمدی ﷺ سے ہی ملے گا۔ اس یقین کے بعد ہمیں اپنا تن من دھن سیرت محمدی ﷺ کے اتباع میں کھپا دینے پر کمربستہ ہوجانا چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں زیرزمین تیل تلاش کرنے والی کمپنی کی مثال پیش نظر رکھنی چاہیے۔ ایسی کسی کمپنی کے ماہرین کو اگر کسی جگہ کے بارے میں گمان ہو کہ یہاں سے تیل ملنے کا امکان ہے تو وہ صرف اس گمان اور امکان کی بنیاد پر کروڑوں روپے اس جگہ کی ڈرلنگ پر صرف کردیتے ہیں۔ لیکن ہمارا تو ایمان ہے ‘ ہمیں تو یقین ہے کہ ”جا ایں جاست“۔ تو پھر ہم کیوں نہ اپنا سب کچھ اس راہ میں نچھاور کردیں ! { وَیَغْفِرْلَـکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”او وہ تمہیں بخش دے گا ‘ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔“ اگر تم لوگوں نے منہاجِ محمدی ﷺ کو اپنے لیے مشعل راہ بنا لیا تو تمہارا رخ سیدھا ہوگیا ‘ مجموعی طور پر تم سیدھے راستے پر آگئے۔ اب اگر اس راستے پر چلتے ہوئے کوئی خطا یا کوئی لغزش ہوگی تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے : { اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْط } النساء : 17”اللہ کے ذمے ہے توبہ قبول کرنا ایسے لوگوں کی جو کوئی بری حرکت کر بیٹھتے ہیں جہالت اور نادانی میں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں ‘ تو یہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرمائے گا۔“ چنانچہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری خطائیں اور لغزشیں معاف کرتا رہے گا۔ وہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔