رب المشرقين ورب المغربين ١٧
رَبُّ ٱلْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ ٱلْمَغْرِبَيْنِ ١٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 17{ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ۔ } ”وہ ربّ ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا۔“ یہاں پر رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ اور رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ تثنیہ کے اس صیغہ کی مناسبت سے آیا ہے جو پوری سورت میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں { رَبُّ الْمَشْرِقِِ وَ الْمَغْرِبِ } المُزَّمل : 9 اور { رَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ } المعارج : 40 کی تراکیب بھی آئی ہیں۔ بہرحال واحد ‘ تثنیہ اور جمع کے یہ تینوں صیغے اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ واحد کے صیغے میں مشرق اور مغرب تو معروف عام ہیں۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے تصور کو یوں سمجھیں کہ ایک وقت میں سورج جہاں سے طلوع ہو رہا ہے گلوب کی دوسری طرف وہیں پر وہ غروب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح جس نقطے پر سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے دوسری طرف اسی جگہ سے طلوع ہوتابھی دکھائی دیتا ہے۔ گویا سورج طلوع ہونے کا ہر نقطہ مقام غروب بھی ہے اور اسی طرح ہر مقام غروب گویا مقام طلوع بھی ہے۔ اس لحاظ سے گویا مشرق بھی دو ہیں اور مغرب بھی دو۔ پھر کسی ایک مقام سے بظاہر نظر آنے والے مشرق و مغرب کے درمیان زمین پر ہر ہر نقطہ گلوب میں کسی کے لیے مقام طلوع ہے اور کسی کے لیے مقام غروب۔ اس طرح گویا بہت سے مشرق ہیں اور بہت سے مغرب۔