وان امراة خافت من بعلها نشوزا او اعراضا فلا جناح عليهما ان يصلحا بينهما صلحا والصلح خير واحضرت الانفس الشح وان تحسنوا وتتقوا فان الله كان بما تعملون خبيرا ١٢٨
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًۭا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًۭا ۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌۭ ۗ وَأُحْضِرَتِ ٱلْأَنفُسُ ٱلشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًۭا ١٢٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 128 وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا ایک نشوز تو وہ تھا جس کا تذکرہ اسی سورة کی آیت 34 میں عورت کے لیے ہوا تھا : وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نَشُوْزَھُنَّ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو۔ یعنی وہ عورتیں ‘ وہ بیویاں جو خاوندوں سے سر کشی کرتی ہیں ‘ ان کے احکام نہیں مانتیں ‘ ان کی اطاعت نہیں کرتیں ‘ اپنی ضد پر اڑی رہتی ہیں ‘ ان کے بارے میں حکم تھا کہ ان کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے۔ اب یہاں ذکر ہے اس نشوزکا جس کا اظہار خاوند کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر ظلم کر رہا ہو ‘ اس کے حقوق ادا کرنے میں پہلو تہی کر رہا ہو ‘ اپنی قوّ امیت کے حق کو غلط طریقے سے استعمال کر رہا ہو ‘ بےجا رعب ڈالتا ہو ‘ دھونس دیتا ہو ‘ یا بلاوجہ ستاتا ہو ‘ تنگ کرتا ہو ‘ اور تنگ کر کے مہر معاف کروانا چاہتا ہو ‘ یا اگر بیوی کے والدین اچھے کھاتے پیتے ہوں تو ہوسکتا ہے اسے بلیک میل کر کے اس کے والدین سے دولت ہتھیانا چاہتا ہو۔ یہ ساری خباثتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور عورتیں بیچاری ظلم و ستم کی اس چکی میں پستی رہتی ہیں۔ آیت زیر نظر میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے اندیشہ ہوجائے کہ وہ زیادتی کرے گا ‘ یا اگر شوہر زیادتی کر رہا ہو اور وہ بیوی کے حقوق ادا نہ کر رہا ہو ‘ یا اس کی طرف میلان ہی نہ رکھتا ہو ‘ کوئی نئی شادی رچا لی ہو اور اب ساری توجہ نئی دلہن کی طرف ہو۔فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا ط یہاں صلح سے مراد یہ ہے کہ سارے معاملات باہم طے کر کے عورت خلع لے لے۔ لیکن خلع لینے میں ‘ جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں جبکہ عورت کو مہر چھوڑنا پڑے گا ‘ اور اگر لیا تھا تو کچھ واپس کرنا پڑے گا۔وَالصُّلْحُ خَیْرٌط وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط مردچا ہے گا کہ میرا پورا مہر واپس کیا جائے جبکہ عورت چاہے گی کہ مجھے کچھ بھی واپس نہ کرنا پڑے۔ یہ مضامین سورة البقرۃ میں بیان ہوچکے ہیں۔ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا تم مرد ہو ‘ مردانگی کا ثبوت دو ‘ اس معاملے میں اپنے اندر نرمی پیدا کرو ‘ بیوی کا حق فراخ دلی سے ادا کرو۔