يا ايها الذين امنوا ان تنصروا الله ينصركم ويثبت اقدامكم ٧
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تَنصُرُوا۟ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کے اس اعزاز ، ان سے اللہ کی رضامندی ، ان کی اس نگہبانی اور بلند مقامات کی اس فضا میں اہل ایمان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے لئے یکسو ہوجائیں اور اسلامی نظام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے گا اور اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں کے لئے تو ہلاکت ہی مقدر ہے۔

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔ اقدامکم (7) والذین کفروا ۔۔۔۔۔ اعمالھم (8) ذلک بانھم کرھوا۔۔۔۔ اعمالھم (9) (47 : 7 تا 9) “ اے لوگوں ، جو ایمان لائے ہو ، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے تو ان کے لئے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے ، لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ”۔

مومن اللہ کی مدد کسی طرح کرتے ہیں ؟ تا کہ وہ اپنی شرط پوری کردیں اور اللہ جواب میں ان کی نصرت کرے اور ان کو ثابت قدم کر دے۔ اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے لئے مخلص ہوجائیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، نہ ظاہری شرک اور نہ خفی شرک ۔ اور وہ اللہ کے مقابلے میں کسی شخص پر اور کسی شے پر بھروسہ نہ کریں اور اللہ ان کے لئے ان کی ذات اور تمام محبوب چیزوں سے محبوب ہوجائے اور انسان کی خواہشات ، میلانات ، مرغوبات ، اس کی حرکات و سکنات ، اس کے خلجانات اور اس کی تمام سرگرمیوں میں اللہ حاکم ہوجائے۔ یہ ہے نفوس انسانی کی طرف سے اللہ کی نصرت۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسانی زندگی کے لئے ایک شریعت اور نظام زندگی تجویز کیا ہے اور یہ نظام اس زندگی اور اس کائنات کے لئے ایک خاص تصور پر تشکیل پایا ہے۔ اللہ کی نصرت یوں ہوتی ہے کہ اس کے نظام کی نصرت کی جائے اور پوری زندگی میں انسان اس نظام کو نافذ کر دے۔ یہ ہے اللہ کی نصرت ہماری حقیقی زندگی میں۔

یہاں دو فقرے بہت ہی اہم ہیں ، ان پر غور ضروری ہے۔

والذین قتلوا فی سبیل اللہ “ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ”۔ دوسرا یہ کہ ان تنصروا اللہ “ اگر تم اللہ کی مدد کرو ”۔ ان دونوں حالات میں ، یعنی قتل ہونے میں اور نصرت میں یہ ضروری ہے کہ یہ اللہ کی راہ میں ہو۔ یہ ایک نہایت ہی واضح قابل توجہ نکتہ ہے لیکن جب کسی نظریہ پر صدیاں گزر جاتی ہیں تو اس کی اصل صورت مسخ ہوجاتی ہے۔ لوگ شہادت اور جہاد کے الفاظ تو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا حقیقی مفہوم اور شرائط ان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔

کوئی جہاد نہیں ہے ، کوئی جنت نہیں ہے ، کوئی شہادت نہیں ہے۔ مگر صرف اس وقت کہ وہ صرف اللہ کے لئے ہو۔ اللہ کی راہ میں ہو۔ صرف اللہ کے لئے رکا وہ ، اللہ کے نظام کی مدد کے لئے مرتا ہو ، اور اس نظام کو اپنی ذات اور اپنے منہاج حیات میں نافذ کرنا ہو۔

کوئی جہاد ، کوئی شہادت اور کوئی جنت نہیں ، الا یہ کہ یہ سب کچھ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ہو اور اس لیے کہ اللہ کا نظام لوگوں کی زندگیوں میں غالب ہو۔ ان کے اخلاق و طرز عمل میں نافذ ہو ، ان کے احوال اور قوانین اور دستور میں نافذ ہو۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری ہے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو نمائش شجاعت کے لئے لڑتا ہے ، یا حمیت جاہلیہ کے لئے لڑتا ہے یا ریا کاری کے لئے لڑتا ہے۔ کیا یہ فی سبیل اللہ ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے جنگ کی محض اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو صرف وہ فی سبیل اللہ ہے ” (شیخین و ترمذی اور نسائی) ۔

اسلامی جہاد کا نہ کوئی اور جھنڈا ہے ، نہ کوئی اور مقصد ہے۔ اللہ کے لئے جو لڑتا ہے وہ بس اللہ ہی کے لئے لڑتا ہے۔ اس لیے جو شہید ہوتا ہے ، وہ وہی ہے جو اسی کے لئے شہید ہوتا ہے۔ صرف ایسے شہداء کے لئے جنت کا وعدہ ہے۔ صرف یہی جھنڈا اور یہی مقصد مقبول ہے۔ وہ نہیں جو صدیاں گزرجانے کے بعد کوئی نئے جھنڈے بن گئے ، کچھ نئے مقاصد سامنے آگئے اور کچھ نئے نام رکھ لیے گئے !

داعیاں حق کو اس اس واضح بات کو سمجھ لینا چاہئے اور ہمارے معاشروں کے اندر جہاد و قتال کے تصور میں جو انحراف واقع ہوگیا ہے اس کا خیال رکھنا اور اسے درست کرنا چاہئے ۔ نئے بتوں اور ان کے نئے جھنڈوں کے لئے بھی جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے عقیدے اور جہاد کے مفہوم کو واضح اور شفاف رکھیں۔

میں دوبارہ کہتا ہوں کہ جہاد صرف وہی ہے جو اللہ کے کلمے کے بلند کرنے کے لئے ہو۔ انسانی نفس میں کلمے کی بلندی ، انسانی ضمیر میں اس کلمے کی بلندی اخلاق اور طرز عمل میں اس کلمے کی بلندی ، نظم مملکت اور اداروں میں کلمے کی بلندی ، تعلقات اور روابط میں اللہ کے کلمے کی بلندی اور زندگی کے ہر موڑ اور ہر رخ میں کلمۃ اللہ کی بلندی اور سر بلندی ۔ اس کے سوا جو نعرہ ہے وہ اللہ نہیں ہے ، وہ شیطان کے لئے ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لئے نہ شہادت ہے ، نہ جنت ہے ، نہ اللہ کی نصرت ہے ، نہ ثابت قدمی ہے۔ محض دھوکہ اور فریب ہے۔ بچئے دور جدید کی بت گری سے اور آزدی سے۔

اگر دوسرے لوگوں کے لئے جو داعی الی اللہ نہیں اس قسم کا صاف ستھرا تصور جہاد و قتال مشکل ہے ، تو داعیان حق کو تو اپنے خیالات اور اپنا شعور ، ان غلط تصورات سے صاف کرنا چاہئے۔ داعیان اسلام کو تو دور جدید کے نعروں سے دور رہنا چاہئے جو ہدایتہ فی سبیل اللہ نہیں ہیں۔

۔۔۔ تو یہ تو اللہ کی طرف سے ایک شرط ہے اپنے بندوں پر ، جسے اللہ کی جانب سے لازم کیا ہے ، تو اس کے مقابلے میں اللہ نے ۔۔۔۔ یہ لازم کیا ہے کہ وہ ایسے بندوں کی مدد کرے گا۔ وہ ان کے قدم مضبوط کر دے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا۔ اگر کچھ عرصے کے لئے بظاہر نصرت خدا وندی آتی ہوئی نظر نہ آئے تو اس کے بھی کچھ دوسرے اسباب ہوتے ہیں۔ نصرت اور قدم جمانے سے قبل ان کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ (مزید دیکھئے تفسیر ان اللہ یدافع ( سورة حج کی تشریح ) یہ اللہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اس کے بندوں نے شرط پوری کردی ہے یا نہیں۔

اب میں چاہتا ہوں کہ ہم جواب شرط کے کلمات پر بھی غور کرلیں۔ ینصرکم ویثبت اقدامکم “ وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا ”۔ سب سے پہلے تو انسان کی سوچ ادھر جاتی ہے کہ نصرت سے پہلے ہی قدم جما دئیے جاتے ہیں۔ اور قدم جمانے کے بعد ہی نصرت آتی ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔ لیکن یہاں نصرت آنے کے بعد قدم جمانے میں ایک دوسری حالت اور ایک دوسرے مفہوم کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یعنی جب اللہ کی نصرت آجائے اور مومنین غالب ہوجائیں تو اس کے بعد قدم جمانا مطلب ہے۔ اور یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ کفرو ایمان کا معرکہ اللہ کی نصرت اور فتح آجانے کے بعد ختم نہیں ہوجاتا۔ حق و باطل کی کشمکش پھر بھی جاری رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذات اور عملی زندگی میں نصرت کی الگ ذمہ داریاں ہیں۔ کبرو غرور سے اجتناب ، سستی ، اور وھن (کمزوری) سے اجتناب بہت سے لوگ مشکلات برداشت کرتے ہیں لیکن نصرت اور فتح کے بعد کم لوگ قدم جما سکتے ہیں۔ اور یہاں شاید اسی کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم !