شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 47:4 تا 47:6
فاذا لقيتم الذين كفروا فضرب الرقاب حتى اذا اثخنتموهم فشدوا الوثاق فاما منا بعد واما فداء حتى تضع الحرب اوزارها ذالك ولو يشاء الله لانتصر منهم ولاكن ليبلو بعضكم ببعض والذين قتلوا في سبيل الله فلن يضل اعمالهم ٤ سيهديهم ويصلح بالهم ٥ ويدخلهم الجنة عرفها لهم ٦
فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَضَرْبَ ٱلرِّقَابِ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا۟ ٱلْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءً حَتَّىٰ تَضَعَ ٱلْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَآءُ ٱللَّهُ لَٱنتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُم بِبَعْضٍۢ ۗ وَٱلَّذِينَ قُتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَـٰلَهُمْ ٤ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ ٥ وَيُدْخِلُهُمُ ٱلْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ ٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

یہاں انکار کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اتمام حجت کے باوجود ایمان نہیں لائے اور مزید یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جب ان سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو ان سے لڑ کر ان کا زور توڑ دو، تاکہ وہ آئندہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔

اللہ تعالیٰ کا یہ قانون رہا ہے کہ جن قوموں نے اپنے پیغمبروں کا انکار کیا وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک کردی گئیں۔ مگر پیغمبر آخر الزماں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب تھا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ شرک کا دور ختم کیا جائے اور توحید کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ وجود میں لائی جائے۔ ایسے تاریخ ساز انسانوں کا انتخاب سخت ترین حالات ہی میں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ مخالفین کی طرف سے چھیڑی ہوئی جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کو داخل کرکے یہی فائدہ حاصل کیا گیا۔

جنت مومن کی ایک انتہائی معلوم چیز ہے۔ وہ نہ صرف پیغمبر سے اس کی خبر سنتا ہے بلکہ اپنی بڑھی ہوئی معرفت کے ذریعہ وہ اس کا تصوراتی ادراک بھی کرلیتا ہے۔ غیب میں چھپی ہوئی جنت کا یہی گہرا ادراک ہے جو آدمی کو یہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ قربانی کی قیمت پر اس کا طالب بن سکے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص آج کی دنیا کو قربان کرکے کل کی جنت کا امیدوار نہ بنے۔