undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ ابواسحاق ابن عبداللہ ابن ابی طلحہ سے روایت کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں انہوں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا انصار مدینہ میں ابوطلحہ بہت ہی مالدار تھے ۔ اور ان کو ان کی دولت سے محبوب ترین ایک کنواں تھا جسے ” حاء “ کہتے تھے ۔ یہ مسجد نبوی کے بالمقابل تھا ۔ رسول ﷺ اس کنویں پر جایا کرتے تھے ۔ اور اس کا پاک وصاف پانی پیا کرتے تھے ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ……………” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ “ تو ابوطلحہ نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ “ اور میرا محبوب مال تو ” حاء “ کنواں ہے ۔ اور وہ میری طرف سے صدقہ ہے ۔ میں اس کا ثواب اور عنداللہ اس کی جزاء چاہتا ہوں ۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واہ واہ ! یہ تو بڑا نفع بخش اور قیمتی مال ہے۔ یہ تو نفع بخش مال ہے۔ میں نے سن لیا لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسے اقرباء کے درمیان تقسیم کردیں تو ابوطلحہ نے کہا : تو اللہ کے رسول ﷺ آپ ایسا ہی کردیں۔ تو رسول ﷺ نے اسے اس کے قرباء اور چچازادوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔ (روایت مسلم و بخاری)

مسلم بخاری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ خیبر میں مجھے جو حصہ ملا ہے ‘ اس سے اچھی جائیداد مجھے کبھی نہیں ملی تو اس کے بارے میں آپ کیا مشورہ دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اصل جائیداد اپنے پاس رہنے دو پیداوار سبیل اللہ کردو۔ “

اسی راستے پر صحابہ کرام ؓ میں سے اکثر ایک دوسرے سے آگے بڑھے ‘ یوں وہ اپنے رب سے بھلائی کی تلاش میں اس آیت پر لبیک کہتے رہے ۔ اس دور میں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی طرف ہدایت دی ۔ اللہ کی آواز پر لبیک کہہ کر انہوں نے مال اور دولت کی غلامی سے اپنے آپ کو رہائی دلائی ۔ دلی بخل اور کنجوسی سے نجات پائی اور ذاتی لالچ سے پاک ہوئے ۔ اور یوں اس مقام بلند تک جاپہنچے جو نہایت بلند ‘ نہایت ہی روشن ‘ چمکدار تھا ‘ آزاد ‘ ہلکے پھلے ہر قید وبند سے نکلے ہوئے۔

پارہ چہارم ایک نظر میں

یہ پارہ سورة آل عمران کے آخری حصہ اور سورة نساء کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ یعنی آیت وَالمُحصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ……………تک سورة آل عمران کا آخری حصہ چار اجزاء پر مشتمل ہے ‘ جو سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ‘ جن کے بارے میں ہم سورة آل عمران پر تبصرہ کرتے وقت بحث کر آئے ہیں ۔ یعنی پارہ سوئم میں ۔ یہاں اس بحث کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہاں تبصرہ دیکھا جاسکتا ہے۔

یہاں مختصراً یہ جان لینا چاہئے کہ سورة آل عمران کے ان چار اجزاء میں پہلا ان مکالمات پر مشتمل ہے جو مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں ‘ اہل کتاب اور اہل ایمان کے درمیان ہوئے ۔ یہ مکالمات اس تاریخی پس منظر میں ہوئے جس کے بارے میں ہم آغاز صورت میں وقت کا تعین کرچکے ہیں ۔ یہ مکالمات رمضان 2 ھ کے بعد ماہ شوال 3 ھ کے بعد تک کے دور میں ہوئے ۔ اس سے پہلے سورة آل عمران ‘ تقریباً اس عظیم الشان معرکہ پر تبصرہ ہے ۔ ان تبصروں کے ذریعہ اسلامی تصور حیات کی ماہیت ‘ دین کی حقیقت ‘ اسلام کی حقیقت اور اس نظام کی حقیقت بیان کی گئی ہے جو اسلام نے پیش کیا ‘ اور اسلام سے قبل تمام رسولوں نے اس نظام کو پیش کیا ۔ ان تبصروں میں اہل کتاب کی حقیقت اور ان کے موقف کو بھی واضح کیا گیا ‘ جو رسول اکرم ﷺ کے ساتھ دینی امور میں مجادلہ کیا کرتے تھے ‘ اور آپ کے صحابہ کرام کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے ۔ یہ واضح کیا گیا کہ اہل کتاب دین اسلام سے کس قدر دور جاچکے ہیں ‘ اور یہ کہ مدینہ میں وہ جماعت مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کررہے تھے ‘ اس سورت میں اس کا بھی انکشاف کیا گیا ‘ اور یہ بتایا گیا کہ ان کی ان سازشوں کے پس پردہ کیا کیا خفیہ محرکات کام کررہے ہیں ۔ ان تمام امور پر روشنی ڈال کر اسلامی جماعت کو ان سب معاملات کے بارے میں خبردار کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک عظیم خطرے سے دوچار ہے ۔ اسے غفلت نہ کرنا چاہئے اور ان امور میں دشمن کی کوئی بات تسلیم نہیں کرنا چاہئے ۔

آیات کا دوسرا ٹکڑا جو اس سورت کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے ‘ وہ ایک دوسرے معرکے پر محیط ہے ۔ یہ معرکہ صرف مکر و فریب اور زبانی جدل و مباحثہ پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہ معرکہ تیر وسنان ہے اور ضرب وحرب پر مشتمل ہے ۔ یعنی غزوہ احد ‘ اس کے واقعات ‘ اس میں پیش آنے والے واقعات کے اسباب ونتائج ‘ غزوہ احد پر یہ تبصرہ اس مخصوص اسلوب میں ہے جو قرآن مجید کا شاہکار اور اس کا اعجاز ہے ‘ یہ آیات اس معرکہ کے اختتام پر نازل ہوئیں ‘ اس لئے ان میں بھی اسلامی تصور حیات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اور اس معرکے کے حوادث کے حوالے سے اسلامی جماعت کی تربیت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے نقطہ نظرت سے اس معرکے میں جو غلطیاں ہوئیں یعنی اسلامی صفوں میں جو انتشار پیدا ہوا اور بعض وہ اقدامات جو اضطراب اور پریشانی کا باعث ہوئے ۔ ان واقعات کی وجہ سے ان حالات میں قرآن کریم نے جماعت مسلمہ کو ہدایت دی کہ وہ اپنی راہ پر گامزن رہے ‘ اور اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انہیں انگیز کرے اور وہ مقام اور مرتبہ حاصل کرے جو اس امانت عظمیٰ کے شایان شان ہے ‘ جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے سپرد کی ہے اور اللہ نے اس امت کو یہ نظام دے کر جس اعزاز پر فائز کیا ہے اور جس عظیم فریضہ کے سر انجام دینے کے لئے منتخب کیا ہے ‘ اس پر وہ اللہ کا شکر بجالائے۔

تیسرے حصے میں روئے سخن پھر اہل کتاب کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اور اہل کتاب کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ معاہدات کو ایک ایک کرکے توڑ رہے ہیں ‘ جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ مدینہ طیبہ میں تشریف لاتے ہی طے کئے تھے ۔ ان کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ انہوں نے صحیح اسلامی تصور حیات سے انحراف کرلیا ہے اور یہ کہ انہوں نے ‘ اپنی پوری تاریخ میں ‘ مختلف اوقات میں اپنے انبیاء کے مقابلے میں مسلسل جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے بعد امت مسلمہ کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فکر وعمل میں اہل کتاب کی پیروی نہ کریں اور راہ حق میں انہیں جو جانی اور مالی نقصانات پیش آرہے ہیں ‘ ان پر صبر کریں اور ہر حال میں اپنے دشمنوں سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔

حصہ چہارم میں بتایا گیا ہے کہ صحیح اہل ایمان کے نزدیک اپنے رب کے ساتھ تعلق کی کیا نوعیت ہوتی ہے ‘ جب وہ اس کائنات میں باری تعالیٰ کی آیات ونشانات پر غور کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں ایمان باللہ راسخ ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنے رب اور رب کائنات کی طرف بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور ان کا رب ان کی ایسی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں اجر عظیم عطا کرتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں اہل کفر کے حالات یہ ہیں کہ انہیں صرف اس دنیا کا متاع قلیل دیا گیا ۔ یعنی اس کرہ ارض پر اور یہ کہ آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو ان کے لئے تیار ہے اور نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔ اس سورت کا خاتمہ اس پکار پر ہوتا ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صبر کرنے ‘ مشکلات برداشت کرنے ‘ باہم متحد ہوکر دشمنوں کے مقابلے میں چوکنا ہونے ‘ اور ہر وقت اللہ کا خوف دل میں رکھنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ تاکہ وہ اس دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں۔

یہ چار اسباق جو باہم مربوط ہیں اور ایک ہی سلسلہ کلام میں پارہ سوئم میں بیان کئے ہوئے ہیں مضامین کا تکملہ ہیں اور انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں جن کے بارے میں ہم پارہ سوئم کے آغاز ہی میں تفصیلاً بحث کر آئے ہیں اور مزید تفصیلات اس وقت بیان ہوں گی جب ہم ان پر تفصیلاً بحث کریں گے اور آیات کی تفسیر بیان کریں گے ۔

اس پارے کا دوسرا حصہ سورة نساء کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے ۔ اس پر بحث سورٔ نساء کے ابتدائیہ میں ہوگی ‘ انشاء اللہ اور اللہ ہی ہے جو توفیق اور ہمت دینے والا ہے۔

سبق 26 ایک نظر میں

اس سبق میں ‘ اہل کتاب کے ساتھ ‘ جدل ومناظرے کا یہ معرکہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ یہ آیات وفد اہل نجران کے مباحثے کے ضمن میں نہیں آتیں جیسا کہ روایات میں بھی ذکر آتا ہے ‘ لیکن پنے مضمون اور مفہوم کے اعتبار سے یہ ان آیات کے ساتھ ملتی جلتی ہیں اور انہی کا تکملہ ہیں جو وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئیں ۔ موضوع وہی ہے ‘ اگرچہ روئے سخن خاص یہودیوں کی طرف ہے۔ اور بتادیا گیا کہ وہ مدینہ کے اہل ایمان کے خلاف کیا کیا خفیہ سازشیں ‘ کس کس طرح کررہے ہیں ۔ یہ مجادلہ مکمل بائیکاٹ اور مکمل علیحدگی پر منتہی ہوتا ہے اور پھر روئے سخن ‘ اس سبق میں تھوڑی دیر ہی میں اہل اسلام کی طرف پھرجاتا ہے اور صرف انہیں مخاطب کیا جاتا ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کا نظام زندگی کیا ہے ‘ اس کے فرائض کیا ہیں ‘ بعینہ اس طرح جس طرح سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کے ساتھ مکالمہ ختم کرنے کے بعد امت مسلمہ کو مخاطب کیا گیا تھا ۔ اس لحاظ سے ان دونوں سورتوں میں مکمل مماثلت پائی جاتی ہے ۔

اس سبق کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ نبی اسرائیل پہ کھانے پینے کی ہر چیز حلال تھی ۔ ہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بعض اشیاء سے پرہیز کرتے ہوئے ‘ انہیں اپنے لئے ممنوع قرار دیا تھا ۔ یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے کہ جب توراۃ نازل ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں محرمات طعام کی جو فہرست مروج تھی ‘ اسلام نے ان اشیاء میں سے بعض کا استعمال چونکہ جائز قرار دے دیا تھا ‘ اس لئے یہودیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا ۔ حالانکہ یہ اشیاء صرف یہودیوں کے لئے حرام قرار دی گئی تھیں اور یہ بھی اس لئے کہ وہ نافرمانیاں کا ارتکاب کرتے تھے اور ان پر یہ چیزیں حرام کرکے انہیں سزا دی گئی تھی ۔

اس کے بعد تحویل قبلہ پر وہ جو اعتراضات کرتے تھے ‘ اس کا بھی جواب دیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے سورة بقرہ میں ایک طویل بحث ہوچکی تھی ۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ بیت ابراہیم (علیہ السلام) ہے ۔ اور یہ پہلا گھر ہے جو اس کرہ ارض پر صرف اللہ کی عبادت اور بندگی کے لئے بنایا گیا ۔ اس لئے جو لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہونے کے مدعی ہیں ‘ ان کی جانب سے بیت ابراہیم (علیہ السلام) کو قبلہ قرار دینے کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔

اس کے بعد اہل کتاب کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے ہیں ‘ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں ۔ وہ صحیح اور صراط مستقیم چھوڑ کر ٹیڑھے راستوں پر بھٹک رہے ہیں ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ گمراہی اسلامی نظام زندگی پر بھی چھاجائے ‘ حالانکہ وہ حق کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں ‘ اور وہ بیخبر نہیں ہیں ۔

ایسے حالات میں قرآن کریم اچانک اہل کتاب کو چھوڑ کر امت مسلمہ کو مخاطب کرتا ہے اور انہیں زور دار الفاظ میں متنبہ کرتا ہے کہ وہ اہل کتاب کی اطاعت نہ کریں کیونکہ ان کی اطاعت عین کفر ہے۔ اور اہل ایمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ عین اسی وقت کفر اختیار کریں جب نبی ان کے سامنے اللہ کی کتاب پیش کررہا ہو ‘ اور رسول اللہ ان میں موجود ہوں اور انہیں اس کتاب کی تعلیم بنفس نفیس دے رہے ہوں ‘ وہ ان کا تزکیہ کرتے ہوئے انہیں اللہ خوفی کی تعلیم دے رہے ہوں ‘ اور انہیں یہ تلقین کررہے ہوں کہ وہ اسلام پر اپنی زندگی میں جمے رہیں اور اسی حالت میں اسلام میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔ رسول اللہ اور کتاب اللہ انہیں یاد دلارہی ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو جوڑا ‘ یہ اس کی بڑی نعمت تھی کہ اس نے ‘ اسلام کے جھنڈے تلے ‘ ان کی صفوں کو یکجا کیا ۔ حالانکہ اس سے قبل ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے تھے ‘ اور باہم برسر پیکار تھے ۔ بلکہ وہ آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور اس میں گرنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بچایا اور یہ نجات انہیں اسلامی نظام زندگی کے سبب ملی۔ پھر یہ کتاب تمہیں کتاب تمہیں حکم دیتی ہے کہ تم ایک ایسی امت کی شکل اختیار کرو جس کا مشن اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی طرف بلانا اور برائی سے منع کرنا ہو ‘ اور نصب العین کے محافظ رہیں کہ تم نے اسلامی نظام زندگی کو بروئے کار لانا ہے ۔ پھر تمہیں ڈرایا جارہا ہے کہ تم اہل کتاب کی وسوسہ اندازیوں اور دسیسہ کاریوں پر کان ہی نہ دھرو کیونکہ یہ لوگ تمہاری صفوں کے اندر ہیں ‘ وہ تمہارے اندر اختلافات ڈال کر تمہیں بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ جس طرح وہ خود ان ہی کے اختلافات کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں تباہی سے دوچار ہوئے ۔ روایات میں قرآن کریم کے اس انتباہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ اوس اور خزرج کے درمیان یہودیوں نے اختلاف پیدا کرکے ایک عظیم فتنے کے بیج بودئیے تھے ۔

اس کے بعد قرآن کریم امت مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر اس کا مقام ومنصب کیا ہے ؟ حضرت انسان کی زندگی کے ڈرامے میں امت مسلمہ نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

” تم تو وہ خیر امت ہو جسے تمام لوگوں کی خاطر برپا کیا گیا ہے ‘ تمہارا فرض یہ ہے کہ تم بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اللہ پر ایمان لاؤ۔ “ یوں اللہ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرتا ہے کہ تمہارا مشن کیا ہے ؟ اور تمہاری سوسائٹی کا رنگ ڈھنگ کیا ہونا چاہئے۔

اس کے بعد مسلمانوں کے دشمن کی ذرا خبر لی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اہل اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ‘ نہ ہی وہ مسلمانوں پر غلبہ پاسکتے ہیں ‘ ایسا غلبہ جو مکمل بھی ہو اور دائمی بھی ہو ‘ ہاں وہ یہ کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی جدوجہد کے دوران انہیں اذیت دے سکتے ہیں ‘ البتہ مسلمان اگر اسلامی نظام زندگی اور اپنے منہاج پر قائم رہے تو اللہ کی نصرت انہیں حاصل رہے گی ۔ ان دشمنان خدا پر اللہ تعالیٰ نے ذلت مسلط کردی ہے ۔ وہ ہمیشہ حالت مسکینی میں رہیں گے ۔ اللہ کا غضب ان کو گھیرے رہے گا ۔ اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہوگا کہ انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ معاصی کا ارتکاب کیا ۔ ناحق اپنے نبیوں تک کو قتل کیا ۔ اہل کتاب میں سے بہر حال ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ۔ ایمان لے آئے اور انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اہل اسلام کا منہاج اپنایا۔ اور نیکی اور بھلائی کے پھیلانے کا مشن ان کا نصب العین بن گیا۔ ایسے لوگ بہرحال صالحین میں سے ہیں ۔ ہاں جن لوگوں نے کفر کا راستہ اپنایا ‘ اسلام کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ‘ تو وہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے ماخوذ ہوں گے ‘ ان کی دولت انہیں کوئی نفع نہ دے گی ‘ ان کی اولاد انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گی ۔ اور انجام کار انہیں ایک عظیم تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس سبق کا خاتمہ اہل ایمان کو اس بات کا خوف دلانے پر ہوتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے مقابلے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کوئی خفیہ دوستی قائم نہ کریں۔ اس لئے کہ یہ دوسرے لوگ اپنے دلوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف بغض وعداوت چھپائے ہوئے ہیں ۔ ان کی باتوں سے اہل اسلام کے خلاف بغض وعداوت ٹپکتی ہے ۔ اور ان کے دلوں کے اندر اہل اسلام کے خلاف جو لاوا پک رہا ہے وہ نہایت ہی خوفناک ہے ۔ انتہائی غصے اور نفرت کی وجہ سے وہ اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں اور اہل اسلام پر اگر کوئی آفت ومصیبت آتی ہے تو یہ نہایت ہی خوش ہوتے ہیں اور اگر اہل اسلام کے لئے کوئی کامیابی ظہور پذیر ہوتی ہے تو وہ بہت کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں ۔ ان توضیحات کے آخر میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ان کانگہبان اور محافظ ہے ۔ اگر وہ صبر سے کام لیں اور اللہ خوفی کا رویہ اختیار کریں تو اللہ ان کے دشمنوں کے تمام ہتھکنڈوں کو ناکام کردے گا ۔ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعمَلُونَ مُحِیطٌ……………” جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر حاوی ہے۔ “

یہ طویل توضیحات اور متنوع اشارے ‘ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس دور میں جماعت مسلمہ اور اہل ایمان کی صفوں میں اہل کتاب کس طرح گھسے ہوئے تھے اور کیا کیا سازشیں کررہے تھے ۔ اور بےچینیاں پھیلا رہے تھے ۔ اور یہ کہ اس سبق نے اس وقت بحرانی کیفیت پیدا کردی تھی ۔ نیز یہاں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تحریک اسلامی کو کس قدر مضبوط راہنمائی کی ضرورت تھی ‘ تاکہ وہ اپنے اور جاہلیت کے کامریڈوں کے درمیان پائے جانے والے تعلقات وروابط کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اسلامی نظریہ حیات اور جاہلیت کے درمیان ایک قطعی امتیاز پیدا کردیا جائے ۔ اور پہلی تحریک اسلامی کے بعد آئندہ نسلوں کے لئے بھی یہ ہدایت اور توضیح کام آئے ۔ اور آنے والی نسلوں کو متنبہ کردیا جائے کہ ان کے موروثی دشمن کون ہیں ؟ یہ ایسے دشمن ہیں کہ وہ نئے نئے روپ اور نئے نئے وسائل لے کر میدان میں آتے ہیں لیکن ہیں وہ ایک ہی۔