هو الذي انزل عليك الكتاب منه ايات محكمات هن ام الكتاب واخر متشابهات فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تاويله وما يعلم تاويله الا الله والراسخون في العلم يقولون امنا به كل من عند ربنا وما يذكر الا اولو الالباب ٧
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ مِنْهُ ءَايَـٰتٌۭ مُّحْكَمَـٰتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلْكِتَـٰبِ وَأُخَرُ مُتَشَـٰبِهَـٰتٌۭ ۖ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ زَيْغٌۭ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَـٰبَهَ مِنْهُ ٱبْتِغَآءَ ٱلْفِتْنَةِ وَٱبْتِغَآءَ تَأْوِيلِهِۦ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُۥٓ إِلَّا ٱللَّهُ ۗ وَٱلرَّٰسِخُونَ فِى ٱلْعِلْمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّۭ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَـٰبِ ٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

ایک روایت میں آتا ہے کہ وفد نجران کے عیسائیوں نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ حضرت عیسیٰ کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ سمجھتے ہیں ؟ وہ ان الفاظ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے عقائد باطلہ ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ وہ بشر نہیں ‘ روح اللہ ہیں اور روح اللہ کی وہ اپنی تعبیرات کرتے تھے ۔ لیکن وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم کی ان آیات کی بات بھی نہ کرتے تھے ۔ جو اس موضوع پر محکمات تھیں ‘ جن میں اللہ کی بےقید وحدانیت کا ذکر تھا۔ اور جن میں اس بات کی قطعی تردیدکردی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک یا اس کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا اور ان کی اس سازش کا انکشاف کیا جس کی وجہ سے وہ ان متشابہ تعبیرات قرآن سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے ۔ اور قطعی الدلالت آیات سے صرف نظر کرتے تھے ۔

لیکن یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے ‘ اس میں قرآن مجید کی آیات کے بارے میں مختلف مکتب ہائے فکر کے لوگوں کے مختلف مواقف پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ چناچہ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن مجید ایک کتاب ہدایت ہے ۔ اس میں بعض باتیں تو ایسی ہیں جن کا تعلق اصول ایمان اور اسلامی فکر کے بنیادی حقائق سے ہے ۔ بعض میں اسلامی نظام حیات کی تفصیلات دی گئی ہیں اور بعض آیات میں ان غیبی امور کا بیان ہے جن کا صحیح تصور ہماری محدود عقل کے دائرہ قدرت سے باہر ‘ جن پر ادراک انسانی اپنے موجود محدود وسائل علم کے ذریعہ قابو نہیں پاسکتا ۔ اور ان نصوص میں اکثر وہ باتیں بیان کی گئی ہیں جو انسان کے ادراک سے باہر ہیں ۔

قرآن مجید نے پہلے دو امور یعنی عقیدہ اور نظریہ تصورات اور افکار کے بارے میں اور اسلامی نظام حیات اور شریعت کے بارے میں قطعی الدلالت آیات نازل فرمائیں ۔ جن کا تصور بھی ممکن ہے اور جن کے مقاصد بھی بالکل واضح ہیں اور یہی دوشعبے ہیں جو قرآن کا اصل موضوع ہیں ۔ رہے وہ جن کی خبر رسول ﷺ نے خبر دی یا قرآن نے دی اور ہم نے انہیں سنایا پڑھایا وہ غیبی خبریں جو قرآن نے سنائیں ہیں جن میں پیدائش مسیح کی خبر بھی ہے تو اس بارے میں ہدایت یہ ہے کہ جس حد تک انہیں سمجھ سکتے ہو تو ضرور را ہوار ادراک کو طولانی دو لیکن حد ادراک سے آگے ایمان لاؤ کہ بس یہ خالق حقیقی کی جانب سے ایک حق بات اور ماہیت اور کیفیت کا ادراک فی الحال مشکل ہے ‘ اس لئے کہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے وہ انسان کے موجودہ ذرائع سے وراء ہے۔

اب رہے وہ لوگ ‘ تو وہ ان آیات پر غور ‘ خود اپنی شخصیت کے حوالے سے کرتے ہیں ‘ اگر وہ صحیح الفکر ہیں تو ان کی سوچ صحیح ہے ۔ اگر ان کی فکر ٹیڑھی ہے تو ان کی سوچ بھی ٹیڑھی ہے ۔ اور وہ اپنی اس ٹیڑھی فطرت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہیں تو یہ لوگ قرآن کریم صاف ستھری اور واضح آیات سے صرف نظر کرتے ہیں ۔ وہ واضح اصولوں کو ترک کردیتے ہیں ۔ وہ نہایت ہی مفصل ہیں اور جن کے اوپر اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام زندگی قائم ہے ۔ اور یہ لوگ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں جن کی تصدیق کا دارومدار صرف ایمان پر ہے اور یہ کہ اللہ کی جانب سے نازل کی گئی ہیں ۔

اور یہ کہ ان کے صحیح معنی صرف اللہ جل شانہ کے علم میں ہیں ۔ جیسا کہ انسانی ذرائع علم نسبتی ہیں اور ان کی قوت مدرکہ کا میدان کار محدود ہے ۔ نیز ان کے صحیح فہم کا مدار اس براہ راست الہام اور شعور پر ہے ‘ جو کتاب اللہ کی صداقت کے بارے میں ایک صحیح الفکر آدمی کو حاصل ہوتا ہے کہ یہ پوری کتاب ایک سچی کتاب ہے ۔ اور یہ کہ وہ سچائی کے ساتھ اتاری گئی ہے اور کسی پہلو سے بھی باطل نہ اس پر حملہ آور ہوسکتا ہے ۔ اور ٹیڑھے دل و دماغ والے ان متشابہات کے پیچھے اس لئے پڑے رہتے ہیں کہ وہ ان آیات میں ایسے مواقع تلاش کرلیتے ہیں جن کے ذریعے وہ فتنے پیدا کرتے ہیں ۔ ایسی تاویلات پیدا کرتے ہیں ۔ جس سے اسلامی تصور حیات کے اندر شکوک پیدا کئے جاسکیں ۔ اور جب ان کے ذریعے وہ فکری انتشار پیدا کرلیں تو پھر وہ فکری ژولیدگی کو ان آیات میں بھی داخل کردیں جو بالکل قطعی اور واضح ہیں ۔ حالانکہ ان متشابہات کی تاویل صرف اللہ جانتا ہے وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ …………… ” حالانکہ اس کے اصل معنی صرف اللہ جانتا ہے۔ “

رہے وہ لوگ جو علم میں پختہ کار ہیں ‘ وہ لوگ جنہوں نے علم کے بل بوتے پر جان لیا ہے کہ انسانی عقل ‘ انسانی فکر اور یہ عقل وفکر اپنی موجودہ قوت اور موجودہ ذرائع عقل وفکر کی مدد سے وہ ان متشابہات کے مفاہیم نہیں پاسکتے ۔ اس لئے وہ پوری شرح صدر اور اطمینان سے کہتے ہیں آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا……………” ہم ان پر ایمان لائے ‘ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں “ ان کا یہ ایمان انہیں اس نتیجے تک پہنچاتا ہے ‘ بڑے وثوق سے کہ یہ آیات اللہ کی جانب سے ہیں ‘ اس لئے یہ حق ہیں اور سچائی پر مبنی ہیں ۔ اور جس چیز کا فیصلہ اللہ کردے وہ بذات خود سچی ہوتی ہیں اور انسانی عقل کے نہ بات فرائض میں شامل ہے ۔ اور نہ ہی اس کے دائرہ قدرت میں ہے کہ وہ ان آیات کے اسباب وعلل کا کھوج لگائے ………اس کے مفاہیم کی ماہیت معلوم کرے اور ان کے اندر پوشیدہ اسباب وعلل کا کھوج لائے وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ……………کے سامنے جب یہ آیات پیش ہوتی ہیں تو وہ ان کی صداقت کو قبول کرلیتے ہیں۔ وہ اپنی داقت شعار فطرت اور فہم رسا کی وجہ سے مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ ان کی عقل ان میں شک ہی نہیں کرتی ۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ بات پالی ہوتی ہے کہ علم اور خردمندی یہ ہے کہ جس حقیقت کا ادراک بذریعہ علم وعقل نہ ہوسکے اس میں دلچسپی نہ لی جائے ۔ خصوصاً جو امور انسان کے ذرائع علم کے حدود سے باہر ہوں۔

وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ……………کی یہ ایک بہترین تصویر ہے ‘ اس تصویر اور تعریف کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو سطحی ہو ۔ جو اپنے سطحی علم کی وجہ سے اس غرے میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے ۔ اور جو چیز ان کے علم میں نہیں ہے گویا اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہ سب کچھ پاگئے ۔ اس لئے تمام حقائق کی صورت وہی ہے جو ان کے ذہن میں آتی ہو ‘ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کے مطلق اور بےقید کلام کا قیاس اپنی عقلیت کے پیمانوں اور فصیلوں کے مطابق کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہ پیمانے ان کی محدود عقل میں نہیں سماتے ‘ اس لئے ہزار حقائق عقل بشری کے دائرے سے باہر ہیں ۔ چونکہ وہ فطرتاً یقین کرنے والے ہوتے ہیں ‘ اس لئے ان کی سچی فطرت تک سچائی جلدی پہنچ جاتی ہے اور تصدیق کرلیتی ہے اور مطمئن ہوجاتی ہے۔ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ……………” اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ “

جب ایک انسان دانشمندی کے اس مقام تک آپہنچتا ہے تو ان کا اجر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے وہ خشوع و خضوع اور گڑگڑا کر دست بدعا ہوجاتے ہیں کہ اللہ ۔ انہیں حق پر قائم رکھ کر ہدایت کے بعد گمراہ نہ کر ‘ ان پر اپنی رحمت اور اپنے فضل کی بارش کردے ۔ خوف آخرت ان کے دامن گیر ہوجاتا ہے ‘ جہاں انہیں لازماً جانا ہے ‘ جس سے کوئی مفر نہیں۔