والذين اجتنبوا الطاغوت ان يعبدوها وانابوا الى الله لهم البشرى فبشر عباد ١٧
وَٱلَّذِينَ ٱجْتَنَبُوا۟ ٱلطَّـٰغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ لَهُمُ ٱلْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ ١٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 17 { وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا } ”اور وہ لوگ جنہوں نے طاغوت سے کنارہ کشی کرلی اس طرح کہ اس کی بندگی نہ کی“ طاغوت کا لفظ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے یہ لفظ سورة البقرۃ کی اس آیت میں پڑھا تھا : { فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق } آیت 257 ”تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا“۔ لفظ طاغوت کا مادہ ”طغی“ ہے اور اس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ اسی مادہ سے اردو لفظ ”طغیانی“ مشتق ہے۔ دریا اپنے کناروں کے اندر بہہ رہا ہو تو بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے لیکن جب وہ اپنی ”حدود“ سے باہر نکل آئے تو ہم کہتے ہیں کہ دریا میں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح انسان اگر اللہ کی بندگی کی حد میں رہے تو وہ اللہ کا بندہ ہے ‘ اس کا خلیفہ ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن اگر بندگی کی حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ ”طاغوت“ ہے۔ پھر چاہے ان حدود کو پھلانگنے کے بعد وہ اپنے نفس کا بندہ بن جائے یا کسی اور کو اپنا مطاع بنا لے ‘ خود حاکم بن بیٹھے یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے ‘ اللہ کی نظر میں وہ طاغوت ہی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے کنارہ کشی کرلی اس سے کہ وہ طاغوت کی اطاعت یا بندگی کریں : { وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰیج فَبَشِّرْ عِبَادِ } ”اور انہوں نے رجوع کرلیا اللہ کی طرف ‘ ان کے لیے بشارت ہے ‘ تو اے نبی ﷺ ! میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجیے۔“ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اب اگلی آیت بہت اہم ہے ‘ اس میں ان بندوں کی صفت بیان کی گئی ہے جنہیں بشارت دی جا رہی ہے۔