افمن زين له سوء عمله فراه حسنا فان الله يضل من يشاء ويهدي من يشاء فلا تذهب نفسك عليهم حسرات ان الله عليم بما يصنعون ٨
أَفَمَن زُيِّنَ لَهُۥ سُوٓءُ عَمَلِهِۦ فَرَءَاهُ حَسَنًۭا ۖ فَإِنَّ ٱللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَٰتٍ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۢ بِمَا يَصْنَعُونَ ٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

افمن زین ۔۔۔۔۔ بما یصنعون (8 (

شرکا دروازہ اور اس کی کنجی یہ ہے کہ انسان کے لیے اس کے برے اعمال کو اچھا بنادیا جائے ۔ شیطان یہی کام کرتا ہے کہ انسان کے لیے اس کے برے اعمال اچھے بنادیئے جاتے ہیں اور وہ برے کاموں کو اچھے کام سمجھتا ہے ۔ وہ جس قدر برے افعال کرتا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھا کررہا ہے اور وہ کام اسے لگتے بھی اچھے ہیں ۔ ایسا شخص کبھی اپنے اعمال کا جائزہ بھی نہیں لیتا کہ ان میں کیا کیا غلطی کے مقامات ہیں کیونکہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ غلطی نہیں کرتا۔ اسے پختہ یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ کہتا اور کرتا ہے ، وہ درست ہے ۔ وہ اپنے قول وعمل پر اتراتا ہے اور اپنے کاموں سے اسے عشق ہوجاتا ہے ۔ اسے یہ خیال بھی نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے کسی کام پر نظر ثانی کرے یا اپنا محاسبہ خود کرے ۔ لہٰذا وہ اپنے کسی خیال اور کسی عمل سے رجوع نہیں کرتا ۔ کیونکہ جب کوئی سمجھے کہ وہ اچھا کررہا ہے تو وہ کس طرح اسے چھوڑسکتا ہے کیونکہ اچھے کام کبھی نقصان وہ نہیں ہوتے ۔

افمن زین۔۔۔۔۔۔۔ حسنا (35: 8) ” بھلا ہے کچھ ٹھکانا اس شخص کی گمراہی کا جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنادیاجائے گیا ہو “۔ یہ ہے وہ عظیم مصیبت جو انسان پر شیطان لادتا ہے اور یہ ہے وہ مقام جہاں تک شیطان انسان کی راہنمائی کرکے اسے لے جاتا ہے ۔ پہلے اسے گمراہ کرتا ہے ، پھر اسے ہلاکت کے گڑھے میں گراتا ہے ۔

جس شخص کے لیے اللہ ہدایت اور بھلائی لکھ دیتا ہے اس کے دل میں احساس ، شعور ، احتیاط اور غور وفکر کی عادت ڈال دیتا ہے ۔ وہ اللہ کی تدبیروں سے غافل نہیں رہتا۔ اور نہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ اللہ انسان کے دل کو کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ نہ وہ انسان کی فطرت کمزوری ، تزلزل اور خطاکاری سے غافل رہتا ہے ۔ نہ وہ انسان کے فطری نقص اور عاجزی کو نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ایسا شخص ہر وقت اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے ۔ ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے ۔ اپنے بارے میں بہت حساس رہتا ہے ۔ وہ شیطان سے ہر وقت ڈرتا ہے اور ہر وقت اللہ کی مدد اور نصرت کا امید وار ہوتا ہے ۔

یہ ہے مقام امتیاز اور جدائی ہدایت وضلالت اور فلاح اور بربادی کے درمیان ۔۔۔۔ یہ ایک گہری نفسیاتی حقیقت ہے جس کی تصویر کشی قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا ہے ۔

افمن ذین ۔۔۔۔۔ حسنا (35: 8) ” بھلا کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہاہو “۔

یہ ہے نمونہ اس گمراہ شخص کا جو تباہ وبرباد ہوگیا اور آخر کار وہ ہلاکت کے برے انجام تک پہنچ گیا اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس کے لیے اس کے برے اعمال کو مزین بنا دیا گیا۔ اس خوشنمائی کی وجہ سے وہ مغرور ہوگیا ۔ یوں اس شخص کے دل پر اور آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں اور وہ صحیح راہ کو دیکھ ہی نہیں سکتا ۔ ایسا شخص کوئی اچھا کام بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ وہ خوداپنے کام کو اچھاسمجھتا ہے ۔ ایسا شخص اپنی غلطی کی اصلاح بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے غلطی سرزد ہی نہیں ہوسکتی ۔ وہ کسی فاسد کام کی اصلاح بھی نہیں کرسکتا کیونکہ بزعم خود اس سے فاسد کام کا صدور ہی نہیں ہوسکتا ۔ ایسا شخص ایک حد پر جا کر رکتا بھی نہیں کیونکہ وہ اپنی ہر قدم کو اصلاح سمجھتا ہے۔ غرض شیطان کا صرف یہی کام تمام فسادوں کا دروازہ ہے اور آخرہی گمراہی کی چابی ہے۔

یہاں اللہ سوال فرماتے ہیں کہ اس شخص کی گمراہی کی کیا حد ہوگی جس کے لیے اس کے برے اعمال خوبصورت بنا دئیے گئے ہیں اور وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے ؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس لیے کہ اس کا کوئی جو جواب بھی دے وہی جواب ہوگا۔ کیا ایسے شخص کی اصلاح کی امید کی جاسکتی ہے ؟ کیا یہ شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے۔ کیا یہ شخص اللہ سے ڈرنے والوں جیسا ہو سکتا ہے۔ غرض اس سوال کا اب جو جواب بھی دیں وہی جواب ہوگا۔ یہ وہ اسلوب ہے جو قرآن کریم میں بہت آتا ہے۔ لیکن اس میں ان جوابات میں سے ایک جواب کی طرف بالواسطہ اشارہ کردیا گیا ہے۔

فان اللہ یضل ۔۔۔۔۔ علیھم حسرت (35: 8) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے ، گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، راہ راست دکھاتا ہے “۔ گویا یہ جواب دیا گیا کہ جس شخص کے لئے شیطان اس کے اعمال کو خوشنما بنا دے ایسے شخص پر ضلالت لکھ دی جاتی ہے۔ اس کے لیے اللہ نے ضلالت کا راستہ کھول دیا ہے۔ وہ اس کے اندر چلا گیا ہے ، اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ اللہ کا اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت دے دے اور جسے چاہے ، ضلالت دے دے۔ یوں کہ جو شخص طالب ضلالت ہوتا ہے اسے ضلالت ملتی ہے اور جو طالب ہدایت ہوتا ہے ، اسے ہدایت مل جاتی ہے۔ ضلالت کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ برے اعمال کو اچھا دکھاتی ہے اور ہدایت کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ ہدایت پانے والا ہر معاملے میں محتاط ہوتا ہے ، ڈرتا ہے ، محاسبہ کرتا ہے اور یہی فرق ہے ہدایت اور ضلالت کا۔ اور جب فیصلہ یہی ہے۔

فلا تذھب نفسک علیھم حسرت (35: 8) ” آپ اپنی جان کو ان لوگوں کے غم میں نہ کھلائیں “۔ یہ معاملہ ہدایت و ضلالتر کا معاملہ ہے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ یہ بشر خود رسول اللہ ﷺ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ دل اللہ کی انگلیوں کے درمیان رہیں اور اللہ مقلب القلوب ہے۔ اس طرح اللہ حضور ﷺ کو تسلی دیتے ہیں۔ تاکہ آپ کا رحیم و شفیق دل قرار پکڑے کیونکہ آپ سے ان لوگوں کی گمراہی دیکھی نہ جاتی تھی۔ جبکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ ان بیچاروں کا کس قدر برا انجام ہونے والا ہے اس لیے آپ کا دل جوش مارتا تھا کہ آپ ان کے سامنے جو حق پیش کر رہے ہیں وہ اسے تسلیم کرلیں۔ یہ انسانی حرص ہے ہر شخص جانتا ہے کہ انسان جس چیز کو پسند کرتا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ اسے قبول کرلیں اور اللہ کو رسول اللہ ﷺ سے ہمدردی ہے کہ ان کے احساسات پر یہ ناحق بوجھ ہے کیونکہ یہ حضور ﷺ کے اختیار اور استطاعت ہی میں نہیں ہے کہ وہ سب کو ہدایت میں لے آئیں ، یہ کام اللہ کا ہے۔

تمام مخلص داعیوں کو اس کیفیت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنی دعوت کی اہمیت ، خوبصورتی اور افادیت کو دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب عوام کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ وہ اس خوبصورتی ، افادیت اور حسن کو محسوس نہیں کرسکتے جو داعی محسوس کرتا ہے۔ اس عدم احساس کی وجہ سے یہ اس دعوت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ لہٰذا ایسے مخلص داعیوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی اس ہدایت کو پلے باندھ لیں۔ اپنی پوری قوت دعوت میں جھونک دیں اور پھر لوگوں کو اللہ کے سپرد کردیں۔ اگر کسی قوم کے لیے اللہ نے سچائی کو مقدر نہ کیا ہو تو اسے اپنے حال پر چھوڑ دیں اور مایوس نہ ہوں۔

ان اللہ علیم بما یصنعون (35: 8) ” جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے “۔ وہی ہدایت کی تقسیم کرتا ہے اور کسی کے لیے ضلالت مقدر کرتا ہے۔ یہ سب کام اس کے علم اور اس کی حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ ان باتوں کو اس وقت سے جانتا ہے جب ان کا صدور بھی نہیں ہوا ہوتا۔ اسے پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہوگا۔ یہ تقسیم اس نے علم ازلی سے کرلی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ اپنے علم ازلی کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا۔ سزا اس وقت دیتا ہے جب ان سے اس معصیت کا صدور ہوتا ہے۔ یہاں دوسرا سبق ختم ہوتا ہے۔ اس سبق اور پہلے سبق کے درمیان گہرا ربط ہے اسی طرح آنے والے سبق سے بھی ربط ہے۔