undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

یعملوان لہ ۔۔۔۔۔ وقدور رسیت (34: 13) ” “۔ محاریب تو ان جگہوں کو کہا جاتا ہے جہاں عبادت کی جاتی ہے۔ تماثیل تانبے اور لکڑی کی تصاویر کو کہتے ہیں۔ جوابی جابیہ کی جمع ہے وہ حوض جس میں پانی آئے۔ جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایسے بڑے لگن بناتے تھے جو حوضوں کی طرح تھے اور وہ ان کے لئے ایسے بڑے دیگ بناتے تھے جو اپنی بڑائی کی وجہ سے جڑے رہتے تھے۔ یہ تمام خدمات وہ ہیں جن پر جنات مامور تھے۔ یہ تمام امور اس وقت خارق عادت تھے اس لیے ان کی یہی تفسیر درست ہے۔ اگر ان کو معمولی بنا دیا جائے تو یہ فضل نہیں رہتا۔ اب آل داؤد کو مخاطب کرکے ہدایت دی جاتی ہے۔

اعملوا آل داؤد شکرا (34: 13) ” “۔ ہم نے تمہارے لیے یہ فضل و

کرم حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی شکل میں فراہم کردیا ہے ، لہٰذا اے آل داؤد تم شکر کا طریقہ اختیار کرو۔ فخر و مباہات کا طریقہ نہ اپناؤ اور عمل صالح کا طریقہ اپناؤ۔

وقلیل من عبادی الشکور (34: 13) ” “۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جو حقیقت نفس الامری قارئین کے سامنے رکھتا ہے اور یہ قرآن کریم کے تمام قصوں پر آتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ کا فضل و کرم انسانوں پر اس قدر زیادہ ہے کہ کم انسان شکر ادا کرسکتے ہیں اور بشر ہمیشہ شکر الٰہی کی بجا آوری میں قاصر ہی رہتے ہیں۔ وہ جس قدر زیادہ شکر بھی ادا کریں پھر بھی قاصر رہتے ہیں لیکن اگر وہ بالکل شکر ہی نہ کریں تو ان کا قصور بہت زیادہ ہوگا اور اگر سرکشی کریں تو۔۔۔۔۔ اللہ کے بندے نہایت ہی محدود قوت کے مالک ہیں اور ان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اللہ کی لامحدود نعمتوں پر شکر بجا لاسکیں۔ اگر اللہ کی نعمتوں کو کوئی گنے تو گن ہی نہ سکے ، یہ نعمتیں گو انسان کو اوپر سے ڈھانپ رہی ہے ، پاؤں کے نیچے سے انسان ان میں غرق ہے ، دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے انسان ان سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کی ذات ان میں ڈوبی ہوئی ہے۔ خود انشان انعامات الہیہ کا ایک نمونہ ہے۔

ایک بار ہم بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی دلچسپی کے ساتھ ہمکلام تھے۔ ہر قسم کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اچانک چھوٹی بلی سو سو نمودار ہوئی۔ یہ ہمارے اردگرد گھوم رہی تھی گویا کوئی چیز تلاش کر رہی ہے لیکن وہ بلی زبان سے کچھ کہنے پر قادر نہ تھی۔ اچانک اللہ نے ہمارے دل میں ڈال دیا کہ شاید یہ پیاسی ہے۔ جب ہم نے پانی فراہم کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پیاسی تھی ، اسے شدید پیاس لگی ہوئی تھی لیکن وہ زبان سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ انسان پر اللہ کے فضل و کرم سے ایک بڑا فضل و کرم زبان بھی ہے جس کا شکر ادا کرنا انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔

ایک طویل عرصے تک ہم نے سورج نہ دیکھا تھا۔ سورج کی شعاعیں صرف ایک پیسے کے برابر ہم پر چمکتی تھیں ہم اس کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور اپنے منہ ، ہاتھ اور چہرے اس سورج کے سامنے لاتے ” سر “ پیٹھ اور پاؤں کو اس سورج کی شعاعوں کی ٹکیا سے غسل دیتے۔ اور ہم سب یہ عمل باری باری کرتے۔ یہ ایک نعمت تھی جو ہمیں مل رہی تھی اور جب پہلے دن ہم سورج میں نکلے تو میں وہ خوشی بھول نہیں سکتا۔ اس وقت ہر ایک کے چہرے پر جو مسرت تھی اسکا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ ہر ایک اللہ کا گہرا شکر ادا کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا ، الحمد للہ یہ ہے سورج اور یہ تو ہمیشہ ہی چمکتا رہتا ہے۔

روزانہ یہ شعاعیں کس قدر پھیلتی ہیں اور ہم ان سے گرمی حاصل کرتے ہیں۔ اور ان شعاعوں میں غسل کرتے ہیں۔ یوں ہم اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اللہ کی نعمت میں غرق رہتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ ہم اس عظیم فیض الٰہی سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں جو مفت اور بلا حساب ہمیں فراہم کردیا گیا ہے بغیر مشقت اور بغیر کسی تکلیف کے۔

اگر ہم اسی طرز پر اللہ کی نعمتوں کو پیش کرتے رہیں تو ہماری عمر ختم ہوجائے ، ہماری پوری قوت صرف ہوجائے لیکن پھر بھی ہم ان نعمتوں میں سے کسی معتدبہ حصے کا شمار نہ کرسکیں۔ لہٰذا ہم بھی یہاں اسی مجمل اشارے پر اکتفاء کرتے جو قرآن نے کیا ہے تاکہ آگے اہل فکر و تدبر خود ہی سوچ لیں اور وہ جس قدر اللہ چاہے اس سے تاثر لیں۔ یہ تو ہے اللہ کی نعمتوں کا ایک حصہ اور وہی شخص ان کو پاسکتا ہے جو نہایت ہی توجہ ، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اس طرف متوجہ ہو۔

اب ہم قرآنی قصے کی آخری آیات کی طرف آتے ہیں۔ یہ آخری منظر کا حصہ ہیں۔ حضرت سلیمان وفات پا جاتے ہیں اور جنات ان احکام کی تعمیل میں لگے ہوئے تھے جو انہوں نے اپنی زندگی کے دوران دئیے تھے۔ جنات کو معلوم نہیں ہے کہ حضرت سلیمان تو فوت ہوچکے ہیں۔ حضرت سلیمان جنات کے سامنے عصا پر ٹیک لگائے کھڑے ہی تھے کہ گھن نے ان کے عصا کو کھالیا اور آپ گر گئے۔ تب جنوں کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس مشقت میں مبتلا رہے۔