شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 33:45 تا 33:48
يا ايها النبي انا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا ٤٥ وداعيا الى الله باذنه وسراجا منيرا ٤٦ وبشر المومنين بان لهم من الله فضلا كبيرا ٤٧ ولا تطع الكافرين والمنافقين ودع اذاهم وتوكل على الله وكفى بالله وكيلا ٤٨
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًۭا وَمُبَشِّرًۭا وَنَذِيرًۭا ٤٥ وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِۦ وَسِرَاجًۭا مُّنِيرًۭا ٤٦ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ ٱللَّهِ فَضْلًۭا كَبِيرًۭا ٤٧ وَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَ وَدَعْ أَذَىٰهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلًۭا ٤٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

یایھا النبی انا ارسنک ۔۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (45 – 48)

نبی کا فریضہ منصبی یہ ہے کہ آپ لوگوں پر گواہ ہوں لہٰذا لوگوں کو ایسا عمل کرنا چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ اچھی شہادت دینے کے قابل ہوں کیونکہ آپ نے سچی شہادت دینی ہے۔ اصل واقعہ سے کوئی تغیر و تبدیلی آپ نے نہیں کرنی ہے۔ رسول تو خوشخبری دینے والے ہیں ان لوگوں کو جو اچھے کام کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کے لیے اللہ کی رحمت انتظار میں ہے اور غافل اور بےراہ رو لوگوں کو ڈرانے والے ہیں کہ ان کیلئے سخت عذاب ہے تاکہ وہ بیچارے غفلت میں نہ مارے جائیں اور اگر سزا دی جائے تو وارننگ کے بعد۔

وداعیا الی اللہ (33: 46) ” اور اللہ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا ہے “۔ اس لیے نہیں بھیجا کہ صرف تمہاری دنیا

اچھی ہے۔ تم دنیا میں برتر ہوجاؤ اور قومی وقار تمہارا بلند ہو۔ نہ جاہلی عصبیات کے لئے اسے داعی بنایا ہے۔ نہ مال غنیمت کے حصول کے لئے اٹھایا ہے۔ نہ نظام مملکت کا قیام مطلوب ہے۔ صرف دعوت الی اللہ ان کا منشور و مطلوب ہے اور یہ کام اللہ کے حکم سے انہوں نے شروع کیا ہے۔ نہ یہ اپنی طرف سے ہے اور نہ رضا کارانہ ہے۔ نہ آپ اپنی طرف سے یہ کام بطور رضا کار کرتے ہیں۔ یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہے۔

وسراجا منیرا (33: 46) ” آپ روشن چراغ ہیں “۔ آپ ظلمتوں کو دور کرنے والے ہیں۔ شہادت کو قائم کرتے ہیں۔ راستہ متعین کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے ایسے رہنما ہیں جس طرح سراج منیر ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ اسی طرح روشنی لے کر آئے ۔ یہ روشنی ایک واضح تصور تھا ، ایک واضح نظریہ اور عقیدہ تھا ، جس نے پوری کائنات کو منور کردیا۔ اس کائنات اور انسان کا ربط واضح کردیا اور اس کائنات میں انسان کے مقام و مرتبہ کو متعین کیا۔ ان اقدار کی وضاحت کی جن پر یہ کائنات قائم ہے۔ انسان کا مقصد ، اس کی غرض ، اور اس کے حصول کا طریقہ متعین کیا۔ نہایت ہی واضح اسلوب میں اور نہایت ہی فطری انداز میں۔ اس طرح کہ بات انسان کے دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے۔ مشکل سے مشکل مسائل اور زندگی کے نشیب و فراز میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو آسان ترین طریقوں سے حل کردیا گیا ہے۔ مکرر اس بات کی تفصیل دی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داریوں میں اس بات کا اضافہ کیا جاتا ہے کہ آپ مومنین کے لیے مبشر ہیں۔

وبشر المومنین بان لھم من اللہ فضلا کبرا (33: 47) ” بشارت دے دو ان لوگوں کو جو تم پر ایمان لائے کہ ان کے لیے اللہ کا بہت بڑا فضل ہے “۔ اس سے قبل آیت

یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا (33: 45) ” اے نبی ﷺ ، ہم نے آپ ﷺ کو گواہ ، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے) میں مجملاً آپ ﷺ کو مبشر کہا گیا تھا اور یہ تفصیل اس لیے دی ہے کہ مومنین یقین کرلیں کہ ان پر اللہ کا بہت بڑا فضل و کرم ہوگا اور یہ جو ان کے لیے قوانین اور ضوابط تیار ہو رہے ہیں اور نبی اپنے عمل سے ان کے لیے جو راہ و رسم وضع کر رہے ہیں یہ آخر کار ان کے لیے خوشخبری اور عظیم فضل و کرم کی بشارت ہوں گے۔

اس خطاب میں نبی ﷺ کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ آپ کافروں اور منافقوں کی کسی معاملے میں اطاعت کریں اور مومنین اور آپ ﷺ کو یہ لوگ جو اذیت دیتے ہیں اس کی بھی کوئی پرواہ نہ کریں۔ صرف اللہ وحدہ پر توکل کریں۔ وہی تمہارے لیے کافی مددگار ہے۔

ولا تطع الکفرین ۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (33: 48) ” اور ہرگز نہ دبو کافروں اور منافقین سے ، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی۔ اور بھروسہ کرلو اللہ پر ، اللہ ہی اس کے لئے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کردے “۔ یہ وہی خطاب ہے جو سورة کے آغاز میں بھی تھا ۔ اس سے قبل کہ وہاں قانون سازی کا آغاز کیا جاتا اور جدید انتظامی ہدایات دی جاتیں ۔ یہاں البتہ یہ بات زیادہ ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کافروں اور منافقوں کی اذیت رسانی کی کوئی پرواہ نہ کریں اور نہ ان کی پیروی

کسی معاملے میں کریں اور نہ کسی معاملے میں ان پر اعتماد کریں۔ کیونکہ اللہ وحدہ قابل اعتماد ہے۔

وکفی باللہ وکیلا (33: 48) ” اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کر دے “۔

یوں زید اور زینب ؓ کے واقعہ اور منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کے جواز کے مسئلہ کی تمہید اور تبصرہ دونوں طویل ہیں اور یہ عملی مثال جسے پیش کرنے کے فریضے کو حضور ﷺ بھی بہت بھاری محسوس سمجھ رہے تھے۔ اس لیے اس میں اللہ کی طرف سے تشریح اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی۔ ان معاملات میں تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی تاکہ بندہ اللہ کے احسان اور رحمت کا گہرا شعور حاصل کرلے اور ان احکام کو خوشدلی سے وصول کرے ، قبول کرے اور تسلیم و رضا کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہو۔