شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 33:41 تا 33:44
يا ايها الذين امنوا اذكروا الله ذكرا كثيرا ٤١ وسبحوه بكرة واصيلا ٤٢ هو الذي يصلي عليكم وملايكته ليخرجكم من الظلمات الى النور وكان بالمومنين رحيما ٤٣ تحيتهم يوم يلقونه سلام واعد لهم اجرا كريما ٤٤
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ ذِكْرًۭا كَثِيرًۭا ٤١ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةًۭ وَأَصِيلًا ٤٢ هُوَ ٱلَّذِى يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَـٰٓئِكَتُهُۥ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَكَانَ بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًۭا ٤٣ تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُۥ سَلَـٰمٌۭ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًۭا كَرِيمًۭا ٤٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ لھم اجرا کریما (41 – 44)

اللہ کا ذکر انسان کو اللہ کے ساتھ مربوط رکھتا ہے۔ اور انسان کا دل اللہ کی فکر اور سوچ میں رہتا ہے کہ اللہ کی ذات ہی سب کچھ کرنے والی ہے۔ صرف زبان ہی سے اللہ اللہ کرنا ذکر نہیں ہے۔ نماز قائم کرنا بھی ذکر الٰہی کی ایک شکل ہے بلکہ خصوصی قرآن و سنت میں ذکر کا مطلب قریب قریب نماز ہی ہے۔ امام ابو داؤد اور ابن ماجہ نے اعمش کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اغر ، ابو سعید اور ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی شخص نے اپنی بیوی کو رات کے وقت جگایا اور دونوں نے دو رکعت نماز پڑھی تو دونوں اس پوری رات میں ذاکرین اور ذاکرات میں شمار ہوں گے “۔

اگرچہ ذکر الٰہی نماز سے عام ہے لیکن ہر وہ صورت جس میں بندہ خدا کو یاد کرے ، وہ ذکر الٰہی ہے۔ جس میں بندے کا دل رب سے مربوط ہو ، چاہے زبان سے وہ ادا کرے یا نہ کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ قلبی اور روحانی لحاظ سے انسان اللہ سے مربوط ہوجائے۔ جب انسان اللہ سے غافل ہو ، تو اس کا دل خالی ہوتا ہے ، وہ لاپرواہ ہوتا ہے اور وہ حیران و پریشان ہوتا ہے۔ جب وہ اللہ تک پہنچ جاتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ مانوس اور پرسکون ہوجاتا ہے۔ اب اس کا قلب بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ سنجیدہ بن جاتا ہے۔ اسے قرار و سکون مل جاتا ہے۔ اسے زندگی کی راہ معلوم ہوجاتی ہے ، وہ اپنے منہاج سے باخبر ہوتا ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے ، اسے کہاں جانا ہے اور اس کی راہ کون سی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید ذکر الٰہی پر بہت زور دیتا ہے۔ بہت ہی تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ کو یاد کرو ، چناچہ قرآن مجید ذکر الٰہی کو انسان کے مصروف ترین اوقات اور حالات سے مربوط کرتا ہے تاکہ کسی بھی مصروفیت میں انسان ذکر الٰہی سے غافل نہ ہوجائے ۔ اس کے وہ اوقات اور حالات بھی وسیلہ یاد الٰہی بن جائیں اور یوں انسان حالات اور اوقات کے حوالے سے بھی اللہ سے مربوط ہوجائے۔

وسبحوہ بکرۃ واصیلا (33: 42) ” صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ صبح و شام کے اوقات میں ایک خاصیت ہے۔ وہ یہ کہ ان اوقات میں انسانی قلب اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان اوقات میں انسان کے حالات اور دن اور رات کے اصول بدلتے ہیں جبکہ اللہ لازوال ہے اور اس کے سوا ہر چیز تغیر پذیر اور زوال پذیر ہے۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ جس ذات کو تم یاد کرتے ہو ، اور جس کی تسبیح کرتے ہو ، وہ لازوال ہونے کے ساتھ تم پر بہت ہی رحیم و کریم ہے اور وہی ہے جو تمہاری تخلیق کرتا ہے۔ تمہاری بہتری چاہتا ہے ، حالانکہ وہ غنی بادشاہ ہے اور تم محتاج ہو۔ اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو محض اس کا فضل و کرم ہے۔

ھو الذی یصلی ۔۔۔۔۔ بالمومنین رحیما (33: 43) ” وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے اور وہ مومنین پر بہت مہربان ہے “۔ اللہ بہت بلند ہے ، اس کی رحمتیں بہت زیادہ ہیں۔ اس کا فضل و کرم بہت ہی عظیم ہے۔ اللہ اپنے ان ضعیف اور محتاج بندوں پر رحمت فرماتا ہے جو کمزور اور بےقرار ہوتے ہیں ، ان کو نصیحت کرتا ہے ، ان پر رحم و کرم کرت ا ہے۔ اس کے فرشتے انسانوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور ان کو بھلائی سے یاد کرتے ہیں۔ یوں پھر پوری کائنات بھی بندوں کر یاد کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ فرماتے ہیں جس نے مجھے یاد کیا اپنے دل میں ، میں اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ جس نے مجھے لوگوں میں یاد کیا میں اسے ان سے اچھے لوگوں میں یاد کرتا ہوں “۔ یہ ایک عظیم قسمت ہے جس کا تصور انسان کے لئے ممکن نہیں کہ انسان اور یہ زمین اس کائنات کا ایک حقیر ذرہ ہیں اور یہ افلاک اور یہ پوری کائنات اللہ کی لاتعداد مخلوقات و املاک کا حقیر حصہ ہیں جو کن فیکون سے پیدا ہوئے۔

ھو الذی یصلی ۔۔۔۔۔ الی النور (33: 43) ” وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئیں۔ اللہ کا نور ایک ہے ، وہ ہر کسی کے شامل حال ہے اور عام ہے۔ اللہ کے نور کے سوا جس قدر افکار و خیالات بھی ہیں ، وہ ظلمات ہیں۔ جب بھی لوگ اللہ کے نور سے نکلیں گے وہ تاریکیوں میں ہوں گے۔ جزوی تاریکی ہوگی یا کلی تاریکی ہوگی۔ اور یہ تاریکی صرف ایک ہی ذریعہ سے دور ہو سکتی ہے کہ کسی کے دل میں نور آفتاب طلوع ہوجائے۔ اس کی روح بدل جائے ، وہ فطرت کی طرف لوٹ آئیں۔ یہی کائنات کی فطرت ہے اور یہی رحمت الٰہی ، دعائے ملائکہ اور یہی وہ راہ ہے جس کے ذریعے انسان ظلمات سے نکل آتا ہے لیکن جب اس کا دل کھل جائے۔

وکان بالمومنین رحیما (33: 43) ” اللہ مومنوں پر بہت مہربان ہے “۔ یہ تو ہے دنیا میں اہل ایمان کا معاملہ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے۔ رہی آخرت جو دار الجزاء ہے تو وہاں بھی اللہ کا فضل و کرم ان کے شامل حال رہے گا اور اللہ کی رحمت وہاں بھی ان کو ڈھانپے ہوئے ہوگی۔ وہ ان کے لیے بہت ہی اعزاز ہوگا ، بہت ہی خصوصی کرم ہوگا اور اجر عظیم ان کے لیے وہاں تیار ہے۔

تحیتھم یوم یلقونہ سلم واعدلھم اجرا کریما (33: 44) ” جس روز وہ اس سے ملیں گے ، ان کا استقبال سلام سے ہوگا اور ان کے لیے اللہ نے باعزت اجر تیار کر رکھا ہے “۔ ان کے لئے ہر خوف و خطر سے سلامتی ہوگی۔ ہر تھکاوٹ سے وہ دور ہوں گے۔ ان کے لئے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ اللہ کی طرف سے مبارک و سلامت کے پیغامات فرشتوں نے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ یہ فرشتے ان کے پاس ہر طرف سے آتے ہوں گے اور اللہ کی جانب سے سلام پہنچا رہے ہوں گے۔ یہ سلام ان باعزت اجر و معاوضات کے علاوہ ہوگا جو ابھی سے تیار ہیں۔ یہ ہے وہ رب کریم جو لوگوں کے لیے قانون بناتا ہے جو ان کے لیے راہ پسند کرتا ہے۔ لہٰذا کون بدبخت ہوگا جو ایسے رب کے اختیار کردہ نظام سے منہ موڑے گا۔

رہے نبی ﷺ جو ان لوگوں تک اللہ کے پسند کردہ قوانین اور ضوابط پہنچاتے ہیں اور کود اپنی سنت اور اپنے اسوہ اور نمونہ کے ذریعے وہ راستے متعین فرماتے ہیں تو یہاں ان کے بارے میں بھی بتا دیا جاتا ہے کہ ان کے فرائض کیا ہیں۔ آپ کس مشن پر مامور ہیں اور ان کے ذریعے اس دنیا میں اللہ مومنین پر کس قدر فضل کر رہے ہیں۔