۞ ان الصفا والمروة من شعاير الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما ومن تطوع خيرا فان الله شاكر عليم ١٥٨
۞ إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ أَوِ ٱعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًۭا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ١٥٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 158 اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ج۔ یہ آیت اصل سلسلۂ بحث یعنی قبلہ کی بحث سے متعلق ہے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ حج کے مناسک میں یہ جو صفا اور مروہ کی سعی ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے ؟ فرمایا کہ یہ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ شعائر ‘ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو شعور بخشے ‘ جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اور اس کا مظہر اور نشان ہو۔ چناچہ وہ مظاہر جن کے ساتھ اولوالعزم پیغمبروں یا اولوالعزم اولیاء اللہ کے حالات و واقعات کا کوئی ذہنی سلسلہ قائم ہوتا ہو اور جو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہوں شعائر کہلاتے ہیں۔ وہ گویا بعض معنوی حقائق کا شعور دلانے والے اور ذہن کو اللہ کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بیت اللہ ‘ حجر اسود ‘ جمرات اور صفا ومروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ط۔ صفا ومروہ کے طواف سے مراد وہ سعی ہے جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکروں کی صورت میں کی جاتی ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ شاکر آیا ہے۔ لفظ شکر کی نسبت جب بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی شکر گزاری اور احسان مندی کے ہوتے ہیں ‘ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی قدر دانی اور قبول کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ شاکر کے ساتھ دوسری صفت علیم آئی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ چاہے کسی اور کو پتا نہ لگے اسے تو خوب معلوم ہے۔ اگر تم نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے کسی کو کوئی مالی مدد دی ہے ‘ اس حال میں کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا ہے اس کی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونے دی ‘ کجا یہ کہ کسی اور انسان کے سامنے اس کا تذکرہ ہو ‘ تو یہ اللہ کے تو علم میں ہے ‘ چناچہ اگر اللہ سے اجر وثواب چاہتے ہو تو اپنی نیکیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘ لیکن اگر تم نے یہ سب کچھ لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا تھا تو گویا وہ شرک ہوگیا۔