الذين اتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته اولايك يومنون به ومن يكفر به فاولايك هم الخاسرون ١٢١
ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَتْلُونَهُۥ حَقَّ تِلَاوَتِهِۦٓ أُو۟لَـٰٓئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِۦ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِۦ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ ١٢١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہوتا ہے ۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرتے کا رویہ اختیار کریں وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ “

کیونکہ وہ ایمان سے محروم ہوگئے ہیں اور ایمان اس پوری کائنات میں اللہ کی جملہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ لہٰذا ایمان کے خسارے سے بڑا خسارہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اس فیصلہ کن اور زور دار تقریر کے بعد روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف پھرجاتا ہے ۔ گویا اس طویل مقابلے اور مجادلے کے بعد اور اللہ اور اس کے نبیوں کے ساتھ ان کے طرز عمل کی طویل تاریخ کے دہرانے کے بعد انہیں آخری بار متوجہ کیا جاتا ہے۔ انہیں چھوڑ کر حضرت نبی ﷺ اور مومنین کو خطاب کرنے کے بعد اب یہاں دوبارہ انہیں آخری بار دعوت دی جاتی ہے ۔ دراں حالیکہ وہ امانت الٰہی یعنی اسلامی نظریہ حیات کی حفاظت کے شرف سے حد درجہ غافل اور بےپر وہ ہوچکے ہیں ۔ حالانکہ یہ شرف اور ذمہ داری انہیں ازمنہ قدیم سے حاصل چلی آرہی تھی ۔ غرض اس تقریر کے آخری حصے میں بھی لوگوں کو وہی دعوت دی جاتی ہے جو اس کے آغاز میں انہیں دی گئی تھی ۔