شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 22:52 تا 22:54
وما ارسلنا من قبلك من رسول ولا نبي الا اذا تمنى القى الشيطان في امنيته فينسخ الله ما يلقي الشيطان ثم يحكم الله اياته والله عليم حكيم ٥٢ ليجعل ما يلقي الشيطان فتنة للذين في قلوبهم مرض والقاسية قلوبهم وان الظالمين لفي شقاق بعيد ٥٣ وليعلم الذين اوتوا العلم انه الحق من ربك فيومنوا به فتخبت له قلوبهم وان الله لهاد الذين امنوا الى صراط مستقيم ٥٤
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍۢ وَلَا نَبِىٍّ إِلَّآ إِذَا تَمَنَّىٰٓ أَلْقَى ٱلشَّيْطَـٰنُ فِىٓ أُمْنِيَّتِهِۦ فَيَنسَخُ ٱللَّهُ مَا يُلْقِى ٱلشَّيْطَـٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ ٱللَّهُ ءَايَـٰتِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ ٥٢ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِى ٱلشَّيْطَـٰنُ فِتْنَةًۭ لِّلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ وَٱلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ لَفِى شِقَاقٍۭ بَعِيدٍۢ ٥٣ وَلِيَعْلَمَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا۟ بِهِۦ فَتُخْبِتَ لَهُۥ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهَادِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ٥٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

وما ارسلنا ……صراط مستقیم (45)

اس آیت کے نزول میں بہت سی روایات وارد ہیں اور ان کو بیشمار مفسرین نے نقل کیا ہے۔ ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہ سب روایات مرسل ہیں اور ان میں سے کسی کی سند صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم !

ان روایات میں سے جو زیادہ مفصل ہے (ابن ابو حاتم کی ہے اس نے موسیٰ ، ابو موسیٰ ، کوفی ، محمد ابن اسحاق شعبی ، محمد ابن فلج ، موسیٰ ، عقبہ ، ابن شہاب کی سند سے نقل کیا ہعے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ جس زمانے میں سورة نجم نازل ہوئی تو مشرکین کہتے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے الموں کا ذکر اچھے الفاظ میں کرے تو ہم اس کی باتوں کا اقرار کرلیتے اور اس کے ساتھیوں کو بھی مان لیتے۔ لیکن یہ یہود و نصاریٰ پر اس طرح تنقید نہیں کرتا جس طرح ہمارے الموں کو گالیاں دیتا ہے اور شر سے ذکر کرتا ہے۔ اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ کو یہ بات شاق گزرتی تھی کہ مشرکین مکہ آپ کو جھٹلاتے تھے اور آپ کے پیروکاروں کو اذیتیں دیتے تھے۔ ان لوگوں کی ضلالت پر آپ بہت ہی دل گرفتہ تھے۔ آپ کے دل میں بڑی خواہش تھی کہ یہ لوگ ہدایت قبول کرلیں۔ جب سورة نجم نازل ہوئی تو آپ نے تلاوت کی۔

افرء یتم اللت ……لہ الانثی (12) (35 : 91-12) توعین اس وقت شیطان نے ان بتوں کے ذکر کے ساتھ ہی اپنی طرف سے چند کلمات ادا کئے۔ اس نے کہا :

انھن لھن الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لھی التی ترتجی یہ الفاظ شیطان نے اپنی طرف سے بطور فتنہ ملا دیئے۔ یہ الفاظ مکہ کے ہر مشرک کے دل میں بیٹھ گئے۔ چناچہ انہوں نے ان کو نقلک رنا شروع کردیا اور ایک دور سے کو خوشخبریاں دینے لگے۔ انہوں نے کہا کہ محمد نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے اور اپنے پہلے دین اور اپنی قوم کے دین پر آگیا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ سورة نجم کی تلاوت کر کے آخر میں پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور جو مسلم اس کو سن رہے تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا اور جو مشرک سن رہے تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ ولید ابن مغیرہ ایک بڑا آدمی تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں مٹی لی اور اس پر سجدہ کرلیا۔ دونوں گروہوں کو تعجب ہوا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سجدے کے ساتھ سجدہ کرلیا۔ مسلمانوں کا تعجب تو اس بات پر تھا کہ مشرکین ان کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے بغیر ایمان لانے اور یقین کرنے کے۔ یہ اس لئے کہ شیطان نے جو الفاظ ادا کئے تھے وہ مسلمانوں نے نہیں سنے تھے۔ صرف مشرکین نے سنے تھے۔ اس لئے مشرکین مطمئن ہوگئے کیونکہ شیطان نے رسول اللہ ﷺ کی امنیہ (قرأت) میں اپنے فقرے ملا دیئے اور مشرکین کو تسلی دی کہ یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ نے سورة میں تلاوت کیے ہیں تو انہوں نے اپنے الموں کی تعظیم میں سجدہ کرلیا۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی۔ اس بات کو شیطان نے بہت ہی پھیلایا یہاں تک کہ یہ خبر حبشہ میں پہنچ گئی اور وہاں جو مسلمان تھے انہوں نے سنی۔ وہاں مسلمان عثمان ابن مظعون کی قیادت میں ھتے۔ ان کو یہ بات پہنچی کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یکجا نماز پڑھی ہے اور ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ولید ابن مغیرہ نے اپنی ہتھیلی پر مٹی اٹھا کر اس پر سجدہ کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اب مسلمان مکہ میں امن و چین سے ہیں۔ چناچہ یہ مہاجرین بڑی جلدی سے وہاں سے لوٹے۔ اللہ نے شیطان کے الفاظ کو منسوخ کردیا ، اپنی آیات کو مستحکم کردیا اور اس افتراء سے قرآن کو محفوظ کردیا۔ اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وما ارسلنا ……شقاق بعید (22 : 35) ” اور اے نبی ﷺ ، تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول ایسا بھیجا ہے نہ نی (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ ) جب اس نے تمنا کی ، شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہوگیا۔ اس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے ، اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے ، اللہ علیم ہے اور حکیم۔ (وہ اس لئے ایسا ہونے دیتا ہے) تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں۔ “ جب اللہ نے اپنا فیصلہ بتا دیا اور شیطان نے جو شوشہ چھوڑا تھا اس سے برأت کردی تو مشرکین الٹے پائوں پھرگئے اور گمراہی اختیار کر کے مسلمانوں کے ساتھ عداوت شروع کردی بلکہ اور سختی شروع کردی۔

ابن کثیر کہتے ہیں کہ بغوی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کے کلام کی پوری روایات جمع کی ہیں اور محمد ابن کعب قرظی نے بھی اس طرح جمع کی ہیں اور پھر یہاں انہوں نے سوال کیا ہے کہ یہ واقعہ اس طرح یکونکر ہو ہے جبکہ اللہ نے اس معاملے میں حضرت محمد ﷺ کو عصمت کی ضمانت دی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف لوگوں کے جوابات نقل کئے ہیں۔ سب سے گہرا جواب یہ ہے کہ شیطان نے مشرکین کے کانوں میں یہ فقرے ڈال دیئے تھے۔ مشرکین نے یہ سمجھا کہ شاید یہ فقرے بھی حضرت محمد ﷺ نے تلاوت کئے ہیں حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ حضرت شیطان نے ادا کے اور رسول اللہ ؐ نے یہ نہیں ادا کئے۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ ابن عباس نے کا ہے۔

فی امنیتہ کا معنی یہ ہے کہ شیطان نے آپ کی باتوں میں یہ فقرے ڈال دیئے۔ اللہ نے ان کو باطل کردیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔

مجاہد کہتے ہیں اذا تمنی کے معنی ہیں اذا قال لہٰذا کہا جاتا ہے امنیۃ قراتہ یعنی اس کا پڑھنا۔

بغوی کہتا ہے کہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ تمنی کے معنی میں تلا یعنی تلاوت کی اور اللہ کی کتاب پڑھی۔

القی الشیطن فی امنیتہ کے معنی ہیں ” شیطان نے ان کی ملاوٹ میں ڈال دیا۔ ‘ ابن جریر کہتے ہیں کہ تمنی کے معنی ہیں (تلا) یعنی تلاوت کی اور کلام کے مفہوم کو بیان کرنے کے لئے یہ بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔

یہ ہے خلاصہ کلام روایات اور ان احادیث کا جن کو حدیث ” غرانیق “ کہتے ہیں۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے کوئی بنیاد نہیں رکھتی۔ علمائے حدیث کہتے ہیں۔ اہل صحاح نے اس حدیث کو نہیں لیا نہ اس کی کوئی سند صحیح و متصل ہے ثقہ راویوں سے۔ ابوابکر بزار کہتے ہیں۔ یہ حدیث ہمارے علم میں نہیں کہ کسی جگہ نبی ﷺ سے قابل ذکر اسناد متصل سے نقل کی گئی ہو اور موضوع کے اعتبار سے تو یہ اسلام کے بنیادی اصول سے ٹکراتی ہے۔ یعنی نبی ﷺ کے بارے میں عقیدہ عصمت سے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ تبلیغ رسالت کے کام میں شیطان دخیل ہو سکتا ہے۔

مستشرقین اور اسلام پر تنقید کرنے والوں نے اس حدیث میں بڑی دلچسپی لی ہے۔ اس کی انہوں نے بڑی اشاعت کی ہے اور اس کے اردگرد انہوں نے مزید مخالفانہ اقوال جمع کئے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے کوئی قابل حجت بات نہیں کی بلکہ اس موضوع پر بات کرنا بھی فضول معلوم ہوتا ہے۔

خود ان آیات کے اندر ایسی شہادتیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ یا ایسا کوئی انفرادی واقعہ ہوا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پیش آیا ہو۔ آیات کا خلاصہ تو یہ ہے کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ تمام رسولوں کو پیش آتی رہی ہے۔ ” اے نبی تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول ایسا بھیجا ہے اور نہ نبی کہ جب اس نے تمنا کی تو شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہوگیا۔ اس طرح شیطان جو کچھ خلل اندازیاں کرتا ہعے اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے۔ “ لہٰذا اس آیت میں جس بات کا ذکر ہوا ہے وہ تمام انبیاء و رسل کے درمیان صفت مشترکہ ہے اور اس کا تعلق ان کی صفت بشریت سے ہے اور یہ بات اس عصمت کے خلاف نہیں ہے جو رسولوں کے لئے مقرر ہے۔

یہی وہ بات ہے جس کے بیان کی ہم یہاں کوشش کریں گے انشاء اللہ۔ اصل مراد تو اللہ ہی جانتا ہے ہم جو تفسیر بیان کرتے ہیں اپنے انسانی قوائے مدرکہ کسی حد تک ہی کرتے ہیں۔ جب رسولوں کو یہ ڈیوٹی سپرد کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک ہنچائیں۔ ان کے نزدیک محبوب ترین شے یہ ہوتی ہے کہ لوگ ان کی دعوت پر جمع ہوجائیں اور اس بھلائی کا ادراک کرلیں جو وہ اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں اور ان کے تابع ہوجائیں۔ لیکن دعوت کے مقابلے میں بہت ہی مشکلات اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ رسول انسان ہوتے ہیں اور انسانوں کی زندگی محدود ہوتی ہے اور اس حقیقت کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو برق رفتاری سے اپنی دعوت کی طرف کھینچ لائیں۔ مثلاً ان کے دلوں میں یہ بات آئی ہے کہ اگر وہ لوگوں کے ساتھ مصالحت کریں اور جو باتیں ان کے لئے چھوڑنا مشکل ہیں ، مثلاً ان کی عادات ، رسومات ، موروثی شعائر ، ان پر وہ خاموش ہوجائیں۔ وقتی طور پر ، اور شاید اس طرح لوگ دعوت کی طرف آجائیں اور جب وہ دعوت کو قبول کرلیں تو ان کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ یہ موروثی عادات چھوڑ دیں ، جو اب ان کے لئے بہت عزیز ہیں۔ مثلاً معمولی معمولی باتوں پر وہ ان کے ساتھ نرمی کریں اور کسی انکل سے ان کو دعوت کے اندر لے آئیں۔ اس امید پر کہ اندر لا کر پھر انکی تربیت کردی جائے گی اور اس طرح ان کی خلاف اسلام عادات چھوٹ جائیں گی۔

غرض رسول اور نبی اس قسم کی بہت سی تمنائیں کرتے رہے ہیں جن کا تعلق ان کی دعوت کی نشر و اشاعت سے ہوتا ہے جبکہ اللہ کی مرضی یہ تھی کہ دعوت کے حاملین دعوت کو اس کے پورے اصولوں پر جم کر چلائیں۔ دعوت اسلامی کے باریک اقدار کے مطابق اور اس پیمانے کے مطابق کہ من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ” جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ “ کیونکہ اللہ کی تقدیر میں دعوت اسلامی کی کارکردگی یہ ہے کہ وہ خالص اصول انداز کی ہو اور اس میں انسانوں کی کسی تدبیر اور خواہش کی آمیزش نہ ہو کہ دعوت حقیقی اصول پر انہی پیمانوں کے مطابق اگرچہ اس طریقے کے مطابق آغاز میں تعداد کا خسارہ ہوگا۔ کیونکہ دعوت اگر اپنے اصول پر مبنی پیمانوں کے مطابق کوئی رہے تو اخرکار یہ اشخاص بھی دعوت کو قبول کرلیں گے۔ بلکہ ان اشخاص ہے بھی زیادہ با اثر اور اچھے دعوت کو قبول کریں گے اور دعوت اور دعوت بھی خالص صحیح وسالم رہے گا ، اپنی راہ پر سیدھی ہوگی اور اس کے اندر کوئی کجی کوئی پیدا نہ ہوگی۔ نہ اس میں کسی طرح کوئی جھکائو ہوگا۔

انسان کی ان خواہشات اور ان خواہشات کے اظہار کے لئے رسول جو کلمات استعمال کرتا ہے خواہش کا اظہار کرتا ہے اس میں شیطان کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ سازش کر کے دعوت کو اپنی اصلی راہ سے ہٹا دے۔ اس طرح شیطان دعوت کے پھیلانے کے اجتہادی معاملات میں شبہات پیدا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ شیطان کی کار ستانیوں کا دفعیہ کردیتا ہے اور ایسے معاملات میں اللہ کی طرف سے حکم محکم آجاتا ہے اور رسولوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اس محکم فیصلے / عوام تک پہنچا دیا اور رسولوں اور نبیوں کے دلوں میں اجتہادی امور میں جن کا تعلق دعوت کے پھیلانے سے ہوتا تھا جو لغزش ہوگئی تھی اللہ کی طرف سے اس کا بیان آجاتا ہے ، جس طرح رسول اللہ ﷺ کے بعض تصرفات میں بیان آیا ہے۔

یہ شیطان کی سازش ہوتی ہے اور اللہ کو اس کو باطل کر دیات ہے اور حکم محکمہ آجاتا ہے اور شبہ نہیں رہتا ، اجتہادی عمر کی جگہ محکم آیت آجاتی ہے۔ اللہ علیم و حکیم ہے۔ جن لگوں کے دلوں میں نفاق اور انحراف کی بیماری ہے یا جن کے دل پتھر بن گئے ہیں یعنی کفار اور معاندین ، وہ ایسے معاملات میں بحث وسوال کا موقعہ پا لیتے ہیں۔

ان الظلمین لفی شقاق بعید (22 : 35) ” حقیقت یہ ہے کہ ظالم لوگ عناد میں دور نکل گئے ہیں۔ “ رہے وہ لوگ جن کو علم و معرفت دی گئی ہے تو ان کے دل اس بیان اور حکم فیصل پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور وہ اللہ کے حکم کی حکمت کو پا لیتے ہیں۔

ان اللہ لھاد الذین امنوآ الی صراط مستقیم (22 : 35) ” یقینا اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ راستہ دکھاتا ہے۔ “ نبی ﷺ کی زندگی میں اور دعوت اسلامی کی تاریخ میں ہم ایسی مثالیں پاتے ہیں۔ ان کی روشنی میں ہمیں اس تاویل کی ضرورت نہیں پڑتی ہے جس طرح ابن جریر نے اشارہ کیا ہے۔

قصہ ابن ام مکتوم یہ بات نظر آتی ہے۔ وہ ایک اندھے اور فقیر تھے۔ رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول مجھے پڑھائیں اور وہ علم سکھائیں جو آپ کو اللہ نے سکھایا ہے۔ وہ بار بار اس بات کو دہراتے رہے۔ اس وقت رسول اللہ ولید ابن مغیرہ کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے اور وہ قریش کے ممتاز اکابرین میں تھے اور آپ کی خواہش یہ تھی کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ ابن ام مکتوم کو معلوم نہ تھا کہ حضور ﷺ ایسے ہی اہم معاملے میں مشغول ہیں۔ رسول اللہ نے اس موقعہ پر ان کی بار بار کی مداخلت کو ناپسند کیا اور ان سے منہ موڑ یا۔ چناچہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورة نازل کی جس میں رسول اللہ ﷺ سے ذرا سخت بات کی گئی۔

عبس وتولی ……ذکرہ (21) (08 : 1 تا 21)

ترجمہ :۔

” مسترد ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمہیں کیا خبر شاید وہ سندھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لئے نافع ہو ، جو شخص بےپروائی برتتا ہے اس کی طرف تم توجہ کرتے ہو حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر کر رہا ہوتا ہے۔ اس سے تم بےرخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے قبول کرے۔ “

یوں اللہ تعالیٰ نے دعوت اسلامی کو اپنے صحیح اور نہایت ہی دقیق اقدار اور پیمانوں کی طرف لوٹا دیا اور یوں رسول اللہ کے اس طرز عمل کی تصحیح کردی جو آپ نے اکابرین قریش کی بات محض اس لئے اختیار یہ ہے کہ وہ اسلام لے آئیں اور ان کے ساتھ عام کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرلے۔ اللہ نے اس پر دعوت کا جو صحیح اوصول اور طریقہ بنایا وہ یہ تھا کہ اکابر قریش کے اسلام قبول کرنے کے مقابلے میں یہ بات اہم ہے کہ دعوت اسلامی اپنے صحیح خطوط پر کام کرے اس طرح شیطان کے اس وسوسے کو باطل کردیا جو اس نے رسول اللہ کی اس خواہش کے راستے سے ڈال دیا تھا کہ اکابر قریش اگر اسلام قبول کرلیں تو دعوت جلدی پھیل جائے گی۔ اللہ نے اپنی آیات محکمہ نازل کر کے اس رویہ کو درست کردیا اور اہل ایمان کے دل پر مطمئن ہوگئے۔

اس کے بعد نبی ﷺ ابن ام مکتوم کی بہت قدر کرتے تھے۔ جب بھی اس کو دیکھتے ، یہ فرماتے ہیں شخص ہے جس کی وجہ سے اللہ نے مجھے جھڑکا ہے۔ آپ سے حضور ﷺ ہمیشہ پوچھتے تمہیں کچھ ضرورت ہے۔ وہ دفعہ آپ نے اپنی عدم موجودگی میں انہیں مدینہ اپنا خلیفہ بنایا۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایات کی ہے۔ بواسطہ ابوبکر ، ابن ابوشیبہ ، محمد ابن عبداللہ اسد ، اسرائیل ، ہندم ابن شروع ۔ اس کے بعد دوالد سعد ابن ابو وقاص سے وہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، چھ آدمی تھے۔ مشرکین نے کہا ان کو ذرا ہٹا دو یہ ہم سے آگے بڑھتے ہیں کہتے ہیں اس وقت میں تھا ، ابن سعود تھے۔ ہذیل کا ایک شخص تھا۔ بلال تھے اور دو دور سے لوگ تھے جن کا نام میں بھول گیا۔ اس حضور کے دل میں کوئی بات آئی۔ اللہ جانتا ہے کہ کیا بات آئی۔ حضور نے دل میں کوئی بات کی۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل کی۔

ولا تطرد الذین یدعون ……وجھہ ” اور ان لوگوں کو نہ بھکائو ، جو اپنے اپنے کو صحبح کو شامل پکارتے ہیں اور صرف اللہ کی رضا منادی چاہتے ہیں۔ “ یہاں بھی اللہ نے دعوت اسلامی کے نہایت ہی باریک ناپ و تول کرنے والے پیمانے واپس کردیئے اور شیطان نے اس نکتے پر جو وسوسہ اندازی کی تھی ، اس کے اظہار سے قبل اللہ نے اس کی تصویر کردی۔ شاید حضور نے یہ سوچا کہ آئندہ اکابرین قریش کے ساتھ یہ غریب لوگ مجلس میں نہ بیٹھیں جب کہ اللہ کے نزدیک دعوت اسلامی اسلامی کی اقدار کی افادیت ان اکابر قریش کے مقابلے میں زیادہ اچھی تھی۔ نیز دعوت کی اقدار اور پیمانوں کی اہمیت ان ہزار لوگوں کے اسلام سے بھی زیادہ تھی جو ان اکابرین قریش کی بیعت میں تحریک کا ساتھ دیتے اور جن کی تمنا رسول اللہ کرتے تھے۔ اللہ تحریک کے لئے حقیقی قوت کے مراکز کو خوب جانتے تھے۔ تحیک کے لئے اصل قوت یہ تھی کہ وہ اپنی راہ پر استقامت کے ساتھ چلے اور کسی شخص یا کسی رسم و رواج کی کوئی پرواہ نہ کیر۔

زینب بنت بخش کے واقعہ میں بھی یہی پیش آیا۔ آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ، رسول اللہ نے ان کو زید بن حارثہ کی زوجیت میں دے دیا تھا۔ زید حضور کے معنی تھے اور زید ابن محمد کے نام سے مشہور تھے۔ زینب کے ساتھ نکاح بعد ان کی ازدواجی زندگی کی کامیاب نہ ہوئی۔ جاہلیت کا رواج یہ تھا کہ اگر متنبیٰ فوت ہوجائے یا اپنی بیوی / طلاق دے تو اس کے ساتھ اس کا منہ بولا باپ نکاح نہ کرتا تھا۔ اس کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اس رسم کو ختم کردیا جائے۔ جس طرح بیٹے کی نسبت والد کے بغیر کسی دوسرے کی طرف کرنے کی رسم کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا تھا کہ اگر زید اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو آپ اس کے ساتھ نکاح کرلیں تاکہ اس رسم کا ابطال ہوجائے۔ لیکن نبی ﷺ نے اس بات کو اپنے دل میں خفیہ رکھا اور کسی کو نہ بتایا۔ زید جب بھی اپنی بیوی کی شکایت کرتے رسول اللہ : ان کو یہی مشورہ دیتے کہ ” تم اپنی بیوی کو رکھو۔ “ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اگر زید طلاق دیتے ہیں تو مجھے اس سے نکاح کرنا ہوگا اور اس بات کو مطابق رواج عرب پسند نہیں کرتے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس بات کو اس طرح مخفی رکھا یہاں تک کہ زید نے تنگ آ کر زینب کو طلاق دے دی۔ اللہ نے اس کے بارے میں قرآن نازل فرمایا اور اس میں اس بات کی وضاحت کردی جو حضور اکرم ﷺ کے دل میں تھی اور متنبیٰ کے سلسلہ میں اسلامی شریعت کا جو منشا تھا وہ پورا کردیا گیا۔ چناچہ اللہ نے فرمایا :

واذ تقول للذی …… اللہ مفعولا (33 : 83) ” اے نبی آیا کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ ” اپنی بیوی کو نہ چھوڑا اور اللہ سے ڈر “ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو ۔ پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں۔ اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا۔ “

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر حضرت محمد ﷺ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے کسی چیز کو چھپاتے تو وہ اس آیت کو چھپاتے۔

وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشہ (33 : 83) ” اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے الہل کھولنا چاہتا تھا ، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ “

اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت اور اس کے احکام کو نافذ کردیا اور اس بات کو بھی کھول کر رکھ دیا جو رسول اللہ ﷺ کے دل میں خلجان برپا کر رہی تھی کہ لوگ متنبی کی بیوی سے نکاح کو برا خیال کرتے ہیں۔ اللہ نے یہاں بھی شیطان کی راہ کو بند کردیا اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری تھی ، یا جن کے دل دعوت اسلامی کے لئے سخت تھے وہ اس واقعہ کو بھی سامان فتنہ بتاتے رہے اور آج تک اسلام کے دشمن اسے سامان فتنہ بنا رہے ہیں۔

یہ ہے وہ بات جس پر اس آیت کی تفسیر میں ہمارا دل مطمئن ہوگیا ہے۔ اللہ ہی صحیح راستہ بتانے الا ہے۔ رسول اللہ کے بعد دعوت اسلامی کی لیڈر شپ بھی بعض اوقات یہ کوشش کرتی ہے کہ انتہائی با اثر لوگوں کو دعوت اسلامی کی طرف مائل کیا جائے اور ابتداء میں دعوت کے تقاضے میں سے بعض امور میں چشم پوشی کی جائے۔ یہ کام وہ اس جذبے کے تحت کرتے ہیں کہ دعوت اسلامی کو فروغ حاصل ہو اور وہ جلدی غلبہ حصال کرے۔ اس لیڈر شپ کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ امور دعوت کے بنیادی امور نہیں ہوتے۔ یہ لوگ ان با اثر لوگوں کے ساتھ ان امور میں نرمی کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ دعوت سے متنفر نہ ہوجائیں اور اس کی مخاصمت اختیار نہ کریں۔

یہ لوگ بعض ایسے وسائل اور ذرائع بھی اپناتے ہیں جو دعوت اسلامی کے باریک پیمانوں اور اقدار کے ساتھ بےجوڑ ہوتے ہیں نہ یہ امور دعوت اسلامی کے سیدھے سادے طریقے سے لگا کھاتے ہیں یہ کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ دعوت جلدی پھیل جائے اور کامیاب ہوجائے۔ یہ لوگ ان امور کو اپنانے کے لئے دعوت کی مصلحت کے تحت بطور اجتہاد یہ کام کرتے ہیں حلاان کہ دعوت اسلامی کی مصلحت تو اس میں ہے کہ اس کے حقیقی منہاج سے ذرہ برابر انحراف نہ کیا جائے نہ کم اور نہ زیادہ کسی بات میں بھی۔ رہے نتائج تو وہ تو امر غیبی ہیں۔ ان کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ لہٰذا کسی حامل دعوت کو نتائج کا حساب و کتاب اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے۔ حاملین دعوت کا فریضہ صرف یہ ہے کہ وہ دعوت اسلامی کو لے کر سیدھے چل پڑیں۔ دعوت اسلامی کے حقیقی راستے پر چلنے میں ہی کامیاب ہے۔

قرآن کریم صراحت سے کہتا ہے کہ قرآن مجید حاملین دعوت اسلامی پر ان کی آرزئو وں اور تمنائوں کے راستے سے داخل ہوتا ہے تاکہ اس طرح وہ دعوت اسلامی کی صفوں کے اندر داخل ہوجائے۔ جہاں تک انبیاء کا تعلق ہے تو ان کی عصمت کی ضمانت تو اللہ نے دے دی تھی۔ شیطان کے لئے ممکن نہ رہا کہ وہ انبیاء کی فطری تمنائوں کی راہ سے دخل اندازی کرسکے۔ لیکن بعد میں آنے والی لیڈر شپ کو یہ بات معلوم نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ بہت زیادہ چوکنی رہے اور بہت احتیاط سے کام لے۔ یہ نہ ہو کہ وہ اپنے خیال میں کوئی کام اسلام کی بہترین دعوت کے پھیلنے اور کامیاب ہونے کے لئے کر رہے ہوں اور اس میں دعوت کی مصلحت سمجھتے ہوں اور دراصل وہ شیطانی مداخلت ہو۔ داعیان کو چاہئے کہ دعوت کی مصلحت کا لفظ ہی اپنی ڈکشنریوں سے نکال دیں کیونکہ یہ لغزش کا مقام ہے ، اس مقام سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے۔ جب شیطان افراد کی مصلحتوں کی راہ سے اندر نہیں آسکتا تو پھر وہ دعوت کی مصلحت کی راہ سے حملہ کرتا ہے۔ دعوت کی مصلحت اب ایک بت بن گیا ہے۔ آج کل داعیان حق اس کو بہت پوجتے ہیں لیکن اس لباس میں وہ دعوت کے اصل منہاج سے جی چراتے ہیں۔ لہٰذا دعوت اسلامی کی لیڈر شپ کو چاہئے کہ وہ دعوت کے اصل منہاج کو نہ بھولیں اور اس منہاج پر خوف غور کریں اور خصوصاً اس بات کی طرف توجہ نہ کریں کہ فلاں فلاں کام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس میں دعوت کے لئے خطرہ ہے ، یا کارکنان کے لئے خطرہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اصل خطرہ یہی ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملیں دعوت کا حقیقی منہاج چھوڑ دیں ، کسی ھی وجہ سے ، اور صحیح راستے سے انحراف کریں خواہ یہ انحراف قلیل ہو یا کثیر ہو۔ اللہ اپنی دعوت کی مصلحت کو ہم سے زیادہ جانتا ہے اور پھر دعوت کے بچانے اور کامیاب کرانے کے ہم ذمہ دار اور مکلف ہیں ہیں ہمارا فریضہ صرف ایک ہے کہ ہم اپنے منہاج سے انحراف نہ کریں اور اپنے صراط مستقیم سے بالکل ادھر ادھر نہ ہوں۔

آخر میں تنبیہ آتی ہے کہ تم دعوت اسلامی کو شیطانی وسوسوں سے بچانے کی سعی کرو۔ یہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگ مانیں یا دعوت کامیاب ہوجائے۔ اگر کفار اس کو نہیں مانتے وہ دراصل اس کے بارے میں شک میں ہیں اور ان کے انتظار میں درد ناک اور توہین آمیز عذاب ہے۔