پارہ 13 ایک نظر میں
یہ پارہ سورة یوسف کے بقیہ حصے اور سورة رعد اور سورة ابراہیم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں سورتیں بھی مکی ہیں۔ گویا یہ پورا پارہ مکی قرآن پر مشتمل ہے اور اس میں مکی سورتوں کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔
سورة رعد اور سورة ابراہیم پر تبصرے ہم آئندہ پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ رہی سورة یوسف تو اس کے بقیہ حصے کے مطالعہ سے قبل امید ہے کہ قارئین گذشتہ پارے میں سورة یوسف پر کئے گئے تبصرہ کو ذہن میں رکھیں گے۔
اس پارے میں سورة یوسف کا باقی حصہ ہے اور اس کے اندر جا بجا تبصرے ہیں۔ اور آخر میں اس پوری سورة پر ایک تبصرہ ہے۔ اس حصے میں ہم قصے کے مرکزی کردار حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ذاتی زندگی اور ان کی شخصیت کے بعض نئے پہلوؤں سے متعارف ہوتے ہیں یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اب ذرا مختلف روپ میں سامنے آتی ہے ۔ اس شخصیت کے ان بنیادی عناصر ترکیبی کے ساتھ ساتھ جن کا ذکر ہم نے اس قصے کے کرداروں کے بیان کے ضمن میں کیا ہے ، یہاں اس جدید مرحلے میں ان کی شخصیت کے کچھ نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ شخصیت آغاز سے لے کر آخر تک ایک ہی سے خدو خال رکھتی ہے لیکن اس نئے مرحلے میں اس کی کچھ نئی خوبیاں سامنے آتی ہیں اور بظاہر یہ نئی خصوصیات کئی نظر آتی ہیں۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اپنے نشوونما اور بات اور واقعات اور ان مشکلات کی وجہ سے جو ان کو پیش آتی رہیں اب ایک مکمل شخصیت ہے۔ شخصیت کی یہ تکمیل خالص ربانی تربیت کے تحت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک بندہ صالح بن کر سامنے آتے ہیں۔ اس بندہ کی صالح کو تیار ہی اس لئے کیا جارہا ہے کہ زمین میں اس کو تمکن حاصل ہو اور مشرق وسطیٰ کے ایک ایسے ملک میں اسے اقتدار ملے جہاں سے ہر چیز ہر طرف سپلائی جاتی ہے۔
اس شخصیت کے نئے خدو خال کیا ہیں ؟ سب سے پہلے یہ کہ ان کا تعلق باللہ بہت گہرا ہے اور وہ راضی برضا ہیں۔ وہ اللہ کے ہوگئے ہیں اور ان کو اللہ پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ انہوں نے تمام دنیاوی اقدار کا لیا وہ اتار دیا ہے ، زمین کے تمام بندھنوں سے آزاد ہوگئے ہیں۔ وہ اس دنیا کے حکمرانوں سے بےنیاز ہیں۔ یہ دنیاوی قدریں اور یہ قوتیں اس شخصیت کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ اس شخصیت نے اب صرف اللہ سے لو لگا لی ہے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت میں یہ اوصاف اس وقت سامنے آتے ہیں جب بادشاہ مصر کے فرستادے قید خانے میں ان کے پاس آتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اس موقع پر آپے سے باہر نہیں ہوجاتے۔ نہ وہ اس قید خانے کی تاریکیوں سے نکلنے اور بادشاہ وقت سے ملاقات کرنے کے لئے کسی بےتابی کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ایسے مواقع پر بےتابی اور جلد بازی کا اظہار ہو ہی جاتا ہے خصوصاً جبکہ ایک شخص قید خانے کی کوٹھڑی میں بند ہو۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار میں اس تبدیلی کو تب ہی سمجھا جاسکتا ہے جب ہم ذرا چند سال پیچھے ہٹ کر حالات کا معالعہ کریں۔ چند سال پیشتر خود انہوں نے اس شخص سے جو رہا ہونے والا تھا ، درخواست کی تھی کہ بادشاہ کے سامنے ان کے کیس کو پیش کریں۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس طرح اس شخصیت کی قدریں بدل گئی ہیں ، ایمان تو اپنی جگہ پہلے کی طرح موجود ہے ، لیکن اب ان کی شخصیت میں ایک طمانیت ہے ۔ وہ اب بھی اللہ کی تقدیر پر راضی ہیں اور تقدیر کے ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر اپنا کام کیسے کرتی ہے ۔ ان کو وہ اطمینان حاصل ہے جس کے طلبگار ان کے جد اعلیٰ تھے جنہوں نے خدا سے مطالبہ کیا تھا “ اے رب ، مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ؟ “ تو رب تعالیٰ نے فرمایا : “ کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟ “ لیکن انہوں نے کہا “ یقین تو ہے لیکن میں قلبی اطمینان چاہتا ہوں ”۔
یہ ہے وہ اطمینان جو ربانی تربیت نے اس بندۂ مختار کی دل میں انڈیل دیا ہے۔ ابتلاؤں سے گزار کر ، مشکلات میں مبتلا کر کے ، مختلف حالات اور مشاہدوں سے گزار کر اور علم و معرفت اور یقین و اطمینان عطا کر کے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔
اس مرحلے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار میں یہ صفت بہت واضح ہے ۔ یہاں تک اس سورة کے آخری تبصرے ہیں۔ وہ جب اپنے رب کے ساتھ مناجات میں ہیں تو وہ تمام دنیاوی قدروں سے بےنیاز نہیں ۔ فرماتے ہیں :
رب قد اتیتنی من الملک و علمتنی من تاویل الاحادیث فاطر السموت والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین (101)
“ اے رب تو نے مجھے مملکت عطا کردی ہے ، بات کی تہہ تک پہنچنا سکھا دیا ہے۔ دنیا و آخرت میں تو ہی میرا والی ہے۔ مجھے ایک مسلمان کی طرح موت دے اور صالحین کے ساتھ ملا دے ”۔
اب رہیں وہ تعصبات اور تبصرے جو اس سورة میں آئے ہیں ان کے بارے میں ہم بہت کچھ کہہ آئے ہیں اور مزید تشریحات تفسیر آیات میں آئیں گی۔ یہاں تو فقط اس تبدیلی کا تذکرہ مطلوب تھا جو اس بندۂ مختار کی شخصیت میں پیدا ہوئی جو اس قصے میں بڑا کردار ہیں۔ اس تبدیلی کے ساتھ دراصل ان کی شخصیت اب ایک مکمل شخصیت ہے۔ نیز یہ خصوصیت وہ ہے جسے اس پورے حصے میں اجاگر کرنا مطلوب ہے کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے احیائے اسلام کا کام کرنا ہے اور یہی قرآن کا منہاج انقلاب ہے کہ وہ قارئین کے ذہن میں اصل مقصد بٹھا دیتا ہے۔
اب ہم آیات کی تشریح و تفسیر کی طرف آتے ہیں۔
درس نمبر 109 ایک نظر میں
اس سبق میں قصہ یوسف (علیہ السلام) ذرا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس قصے کے چار بڑے مناظر میں سے یہ چوتھا منظر ہے۔ پچھلے پارے میں اس قصے کی تین کڑیاں ختم ہوگئی تھیں۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) قید خانے سے باہر آگئے ہیں۔ بادشاہ نے خود درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ایک اہم منصب سپرد کرنے والے ہیں۔ ان کے اس نئے منصب کی ذمہ داریوں کے بارے میں یہاں اب بات ہوگی۔
یہ سبق سابقہ منظر کے آخری فقرے سے شروع ہوتا ہے۔ گذشتہ منظر کی آخری کڑی یہ تھی کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خواہش کے مطابق بادشاہ نے ان عورتوں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں انکوائری کی تھی جنہوں نے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اسباب نکھر کر سامنے آجائیں جن کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ناحق جیل جانا پڑا تھا تا کہ ان کی بےگناہی کا اعلان ہوجائے اور یہ بات ان کے نئے منصب کے لئے ضروری تھی تا کہ وہ اپنی نئی ذمہ داریاں نہایت اطمینان ، نہایت وثوق اور اعتماد سے پوری کریں۔ ان کا نفس مطمئن ہو اور وہ اعتماد کے ساتھ امور مملکت سر انجام دیں۔ اب ان کی دعوتی زندگی دو قسم کی سر گرمیوں پر مشتمل تھی۔ ایک مملکت کی ذمہ داریاں اور ایک دعوت اسلامی کی ذمہ داریاں ۔ لہٰذا مناسب یہ تھا کہ ان دہری ذمہ داریوں کے اس دور میں وہ ماضی کے گردوغبار کو جھاڑ کر اور ہلکے پھلکے ہو کر سامنے آئیں۔
ان کی شرافت یہ تھی کہ انہوں نے اس مرحلے پر عزیز مصر کی عورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا ، بلکہ اس کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ صرف یہ کہا کہ بادشاہ کو ان عورتوں کے معاملے میں تحقیق کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ لیکن عزیز مصر کی بیوی خود سامنے آتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ حقیقت کیا تھی اور ہوا کیا تھا ؟
قال ما خطبکن ۔۔۔۔۔۔۔ ان ربی غفور رحیم ( یوسف 51 تا 53 ) “ اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اسے پھیلانے کی کوشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے ، اس سے میری غرض یہ تھی کہ یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اسی سے خیانت نہیں کی اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں اللہ ان کی چالوں کو کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کرتی۔ نفس بدی پر اکساتا ہی ہے الایہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بیشک میرا بڑا غفور و رحیم ہے ”۔
یہاں آکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا المناک ماضی ختم ہوجاتا ہے اور اب خوشحالی ، عزت اور اقتدار کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
آیت نمبر 53 تا 57
اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف (علیہ السلام) کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ اسی طرح ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں ، نوازتے ہیں ، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا ، اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے ”۔
بادشاہ کے ہاں یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی بھی ہوگئی ، اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے خواب کی سچی تعبیر بھی معلوم ہوگئی ، بادشاہ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عورتوں کے معاملے کی چھان بین کس طرح کرالی۔ نیز ان کی شرافت اور عزت نفس بھی اس کے سامنے کھل کر ثابت ہوگئی کہ یہ شخص براءت کے بغیر جیل خانے سے بھی باہر آنا گوارا نہیں کرتا ، نہ ہی وہ بادشاہ سے ملاقات کے لئے بےتاب ہے۔ بادشاہ بھی کوئی معمولی بادشاہ نہ تھا بلکہ مصر جیسے بڑے ملک کا بادشاہ تھا۔ انہوں نے اس موقعے پر نہایت ہی شریف اور کریم شخص کا موقف اختیار کیا جو الزام کے ہوتے ہوئے جیل سے باہر آنا گوارا نہیں کرتا۔ وہ حصول مناصب ، بادشاہ سے ملاقات اور جیل کی مشکلات سے ربانی سے قبل اپنی عزت اور شہرت پر سے داغ ہٹانا چاہتا ہے۔ اور یہ کچھ وہ بادشاہ کے دربار میں قدم رکھنے سے قبل چاہتا ہے۔ ان تمام امور نے بادشاہ کے دل میں ان کی وقعت اور اہمیت کو اور بڑھا دیا اس لئے اس نے کہا :
وقال الملک ئتونی بہ استخلصہ لنفسی (12 : 54) بادشاہ نے کہا “ انہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لئے مخصوص کرلوں ”۔ بادشاہ وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو محض رہائی کے لئے طلب نہیں فرماتے یا محض اس لئے نہیں بلا رہے کہ وہ نفسیات اور تعبیر خواب کے ماہر ہیں ، نہ اس لئے بلا رہے ہیں کہ ان کو بادشاہ سلامت کی رضا مندی کی اطلاع دے دیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) پھولے نہ سمائیں ۔ ان مقاصد کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ بادشاہ کے مخصوص مشیر اور ذاتی دوست اور معتمد علیہ ہوں۔
ہمیں ان لوگوں کی حالت پر رونا آتا ہے جو اپنی عزت اور شرافت کو بادشاہوں کے قوموں میں نچھاور کرتے ہیں۔ یہ لوگ آزاد اور بری الذمہ ہیں لیکن یہ خود غلامی کا جوا اپنے ہاتھ سے لے کر اپنی گردنوں میں ڈالتے ہیں اور بڑوں کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں یا ان کی طرف سے تعریف کا ایک لفظ سن کر خوش ہوتے ہیں اور پھر نہایت ہی مطیع فرمان بن کر رہتے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو بڑوں کے سامنے دلیل کرتے ہیں اور بچھے جاتے ہیں۔ کاش اس قسم کے لوگ سورة یوسف پڑھتے اور معلوم کرتے کہ خودداری ، عزت نفس اور شرافت اور سنجیدگی میں کیا مزہ ہے۔ حالانکہ خود داری ، عزت نفس اور کرامت کے فائدے چاپلوسی ، غلامی اور ذلت کی زندگی سے زیادہ ہیں۔ بہرحال بادشاہ نے یہ حکم دیا۔
وقال الملک ئتونی بہ استخلصہ لنفسی (12 : 54) بادشاہ نے کہا “ انہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لئے مخصوص کرلوں ”۔
اب یہاں سیاق کلام میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی وغیرہ کی کڑیاں حذف کردی گئی ہیں اور انسانی تخیل پر چھوڑ دی گئی ہیں۔
فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین (12 : 54) “ اب آپ ہمارے ہاں قدرو منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر بھروسہ ہے ” ۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اسے معلوم ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کی علامات جو کچھ بتا رہی تھیں وہ ان کے مطابق سچے ہیں تو بادشاہ نے اعلان کردیا کہ یوسف (علیہ السلام) ہماری مملکت میں اب صاحب قدرو منزلت ہیں۔ اب یوسف (علیہ السلام) عبرانی غلام نہیں ہیں ، نہ ہی وہ اس تہمت میں گرفتار ملزم ہیں جو عزیز مصر کی بیوی نے ان پر لگائی تھی۔ اب وہ ایک باعزت شخصیت ہیں اور بادشاہ کے ہاں انہیں اونچا مقام حاصل ہے اور وہ بہت ہی امانت دار شخص ہیں۔
بادشاہ کی طرف سے اس اعلان کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا رویہ کیا رہا۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدۂ شکر ادا نہیں کیا۔ جیسا کہ عموماً بادشاہوں کے مصاحب سجدے کرتے ہیں۔ نہ انہوں نے تملق اور چاپلوسی سے کہا اے میرے آقا ! تم زندہ رہو اور یہ غلام تمہارا خادم رہے گا۔ یا یہ کہ میں تمہارا امین ، خادم اور غلام ہوں۔ بلکہ تملق اور چاپلوسی کے بجائے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ مملکت کو پیش آنے والی مشکلات میں وہ جو خدمات کرسکتے ہیں اس کے لئے وہ حاضر ہیں ان آنے والے حالات کے مطابق جو تعبیر خواب کے نتیجے میں لازماً آنے والے ہیں کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پختہ یقین تھا کہ آنے والی مشکلات کو صرف وہی دیکھ رہے ہیں اور صرف وہی ان کے لئے تیاری اور پیش بندی کرسکتے ہیں ورنہ لوگ قحط کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ صرف یوسف (علیہ السلام) ہی تھے جو اپنی دیانت وامانت کی وجہ سے ملک کو بچا سکتے تھے۔
۰%