قال قايل منهم لا تقتلوا يوسف والقوه في غيابت الجب يلتقطه بعض السيارة ان كنتم فاعلين ١٠
قَالَ قَآئِلٌۭ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا۟ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِى غَيَـٰبَتِ ٱلْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ ٱلسَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَـٰعِلِينَ ١٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

ہاں اس موقعہ پر ان میں سے ایک شخص کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے ، وہ اس ہولناک منصوبے کو برداشت نہیں کرسکتا۔ چناچہ یہ شخص ایک ایسا حل پیش کرتا ہے کہ حضرت یوسف قتل ہونے سے بھی بچ جائیں اور ان کے لیے ان کے باپ بھی فارغ ہوجائیں۔ وہ یہ تجویز کرتا ہے کہ اسے بیابان میں پھینکنے کی بجائے قافلوں کی آمدورفت والے کنویں میں پھینک دیں ، کوئی قافلے والے اسے پکڑ کرلے جائیں گے۔ کیونکہ غیر آباد جنگل میں اس کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے اور شارع عام کے کنویں میں بہت ہی کم ہے کیونکہ کوئی قافلہ آئے گا اور اسے غنیمت سمجھ کرلے جائے گا۔ اور وہ باپ کی نظروں سے اور دور ہوجائے گا۔

قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ ۔ " اس پر ان میں سے ایک بولا۔ یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو ۔ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا "

اس شخص نے جو یہ کہا ہے ان کنتم فعلین " اگر کرنا ہی ہے " ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ برادران یوسف ان کے ساتھ یہ حرکت کریں گے۔ نیز اگر انہوں نے کرنا ہے تو یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اور خوشی کا باعث نہیں ہے۔ بہرحال یہ تجویز اس کے کینہ کو پوری طرح ٹھنڈا کرنے والی نہ تھی اور انہوں نے قتل یوسف کا جو فیصلہ کیا تھا اس سے وہ واپس آنے کے لیے تیار نہ تھے اور یہ باتیں اگلے منظر سے معلوم ہوتی ہیں۔