undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

یہ جواب نہایت ہی توہین آمیز اور خود سری پر مبنی ہے۔ ایک جاہل اور بگاڑ میں مبتلا اور مسخ شدہ فطرت پر مبنی جاہل شخص کا جواب ہے اور جواب دینے والا مخاطب کے ساتھ سخت عناد اور دشمنی رکھتا ہے ، ذرا غور کیجئے۔

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ (87 : 11) “ انہوں نے جواب دیا ، “ اے شعیب (علیہ السلام) کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشاء کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو ؟ ”

وہ اس بات کو نہیں سمجھتے یا اس بات کو وہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ نماز اسلامی نظریہ حیات اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اور اللہ کی پرستش اور بندگی کا متعین طریقہ ہے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ کوئی عقیدہ و نظریہ ، عقیدہ توحید کے بغیر حق نہیں ہو سکتا اور کوئی نظام اس کے سوا درست نہیں ہو سکتا کہ آباؤ اجداد کے تمام غلط طریقوں کی کلی نفی کردی جائے۔ نیز اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک اسلامی شریعت قائم نہ کردی جائے اور اسلامی شریعت بھی زندگی کے تمام شعبوں میں نہ نافذ کردی جائے۔ تجارت اور مالی معاملات میں زندگی کے انفرادی معاملات میں اور زندگی کے اجتمائی معاملات میں۔ کیونکہ عقیدہ و عمل اسلامی نظامی میں ایک ہی مجموعہ ہیں۔ ان میں تفریق نہیں ہو سکتی اور نہ عمل کے بغیر محض خالی خولی نعرے کی اسلام میں کوئی اہمیت ہے۔

اس سے قبل کہ ہم دین و معاملات کے درمیان افتراق کے اس احمقانہ تصور کی تردید میں مزید بحث کریں۔ یہاں اس بات کو نوٹ کرنا ضروری ہے کہ آج کی جاہلیت کے عمل برادار اس سلسلے میں وہی کچھ سوچتے ہیں جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی سوچ تھی۔ اور دور جدید کی جاہلیت نے اس غلط سوچ کے لیے قوم شعیب (علیہ السلام) سے برھ کر آگے کوئی دلائل فراہم نہیں کیے۔ جس طرح اس معاملے میں قوم شعیب مشرک تھی ، جدید جاہلیت کے پیروکار بھی اس شرک میں مبتلا ہیں۔ چاہے وہ یہودی ہوں ، چاہے عیسائی ، چاہے وہ آج کے نام نہاد مسلمان ہوں کیونکہ یہ سب لوگ دور جدید میں امیان و عقیدے اور اعمال وشعائر کے درمیان افتراق کرتے ہیں ، شریعت اور عمل کو جدا کرتے ہیں ، یہ لوگ عقائد و عبادات کو اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہیں اور معاملات اور دنیاوی امور اپنے دوسرے مبعودوں اور لیڈروں کے احکام کے مطابق سر انجام دیتے ہیں اور یہی ہے حقیقی اور اصلی شرک۔

ہاں ، اس بات کا اعتراف کرنا بےجا نہ ہوگا کہ جو لوگ یہودی عقائد کے پیروکار ہیں اور ان کے عقائد بار ہا کی تحر یفات کے عمل سے بھی گزرے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ان کی اسمبلی میں جب یہ مسئلہ پیش ہوا کہ ان کے بحری جہاز بعض مسافروں کو غیر شرعی حرام کھانا پیش کرتے ہیں تو ان کی اسمبلی نے ایسے جہازوں کو حکم دے دیا کہ جس قدر خسارہ بھی ہو ، ان کو چاہیے کہ ہر مسافر کو اسرائیلی شریعت کے مطابق صرف حلال کھانا پیش کیا جائے۔ اب ذرا ان لوگوں کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے جو دعوائے مسلمانی کے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ کرتے ہیں۔

آن ہم میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں ، جو مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ اخلاقی نیز معاشی اور معاملات کے میدان میں شریعت کی پابندی نہیں کرتے۔

اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیوں کی ڈگریاں ہیں ، یہ لوگ نہایت ہی تعجب سے پوچھتے ہیں اسلام کو ہمارے ذاتی اور انفرادی معاملات سے کیا تعلق ہے۔ اسلام کو اس بات سے کیا تعلق ہے کہ کوئی ساحلوں پر ننگا پھرتا ہے یا باپردہ۔ اسلام کو اس سے کیا تعلق ہے کہ کوئی عورت گلیوں میں پھرتے ہوئے کیسا لباس زیب تن کرتی ہے۔ پھر اسلام کو اس سے کیا واسطہ کہ کوئی اپنی جنسی قوت کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ پھر اگر کوئی اپنا مزاج درست کرنے کے لیے شراب پیتا ہے تو اسلام کو کیا تکلیف ہے ، پھر اس جدید دور کے تقاضے ہیں اور کچھ لوگ ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں تو اسلام کو کیا تکلیف ہے ؟ یہ سوالات اور قوم شعیب کے اس سوال میں فرق کیا ہے ؟ (اَصَلَوتٰک تَاْمُرُکَ ) “ کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے ان تمام معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پوجا ہمارے آباء کرتے چلے آئے ہیں۔ ”

پھر وہ دوسرا سوال بڑی شدت اور استکار سے کرتے ہیں کہ اسلام کو اقتصادی تعلقات میں دخل دے یا ہمارے لیے اقتصادی اخلاقیات کا کوئی نظام وضع کرے۔ دین کا سودی لین دین کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ دین کو اس سے کیا لگی کہ اگر کوئی مہارت اور دھوکے سے لوگوں سے مال جمع کرتا ہے تو وہ ایسا نہ کرے بشرطیکہ یہ چالاکی و عیاری انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کے دائرے کے اندر ہو ، بلکہ یہ لوگ بڑھی ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ جب بزنس میں اخلاق دخل اندازی کرے تو بزنس تباہ ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ بعض مغربی مفکرین کے اخلاقی نظام اقتصاد کو بھی برا سمجھتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ ہمارے دور کے بعض مخلصین کا مغالطہ ہے۔

قدیم جاہلیت کے علم بردار اہل مدین کی مذمت میں ہمیں بہت آگے نہیں بڑھنا چاہیے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور جدید کی جاہلیت اس کے مقابلے میں کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔ اگر چہ جدید جاہلیت علم ، ترقی اور تہذیب کی مدعی ہے اور یہ جاہلیت ان لوگوں کو رجعت پسندی اور جہالت جمود اور تعصب کا الزام دیتی ہے جو لوگ یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایمان ، شخصی طرز عمل اور بازار کے مادی اور اقتصادی طرز عمل کو باہم مربوط کردیا جائے۔

کوئی شخص اس وقت تک صحیح موحد نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے شخصی معاملات کو اپنے اجتماعی معالمات کو اپنے عقیدے کے ساتھ منسلک نہ کرے ، کیونکہ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو وہ مشرک ہے اور مشرک اور توحید ایک دل میں کسی طرح جمع ہو سکتے ہیں یاد رہے کہ شرک کی کئی قسمیں اور کئی رنگ ہیں ایک رنگ اس کا وہ ہے جو آج کل رائج ہے اور ہم اس کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں اور اصل اور حقیقی شرک کی طرح اس پر بھی تمام مشرکین کا اتفاق ہے ، جدید ہوں کہ قدیم۔ جس دور میں ہوں اور جس مقام پر ہوں۔

ذرا ملاحظہ کیجئے اہل مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھ کیسا طنز کرتے ہیں اور یہی حرکت آج کے مدعیان توحید بھی کرتے ہیں۔

إِنَّكَ لأنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ (11 : 87) “ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے ؟ ان کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو فی الواقعہ راست باز سمجھتے تھے ، بلکہ وہ اس کے برعکس سمجھتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک دانش مندی اور راست بازی یہ تھی کہ وہ ان بتوں کی پوجا کریں جن کی پوجا ان کے آباؤ اجداد کرتے چلے آئے ہیں اور یہ کام بغیر سوچے سمجھے کیا جائے اور یہ کہ عبادت کے دائرے سے تجارت و معاملات کو آزاد رکھا جائے۔ اور یہی تنازعہ آج نام نہاد ترقی پسندوں اور دنام رجعت پسندوں کے درمیان اسی انداز سے چل رہا ہے۔

اب حضرت شعیب (علیہ السلام) ایک ایسے داعی حق کی طرح جیسے اپنی سچائی پر پورا پورا یقین ہو ، ان کے ساتھ نہایت ہی نرمی سے ہم کلام ہوتے ہیں وہ ان کے اس مذاق کو سنجیدگی کے ساتھ نظر انداز کردیتے ہیں۔ اور ان کی جہالت اور ان کے قصور کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آپ ان کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف سے پوری شہادت رکھتے ہیں اور ان کو اپنے مشن کے بارے میں شرح صدر حاصل ہے اور یہ کہ ان کو وہ علم نبوت دیا گیا ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں ، نیز جب یہ اپنے معاملات کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق استوار کریں گے تو ان کو جلد ہی اسلامی نظام معیشت کے فوائد کا علم ہوجائے گا۔ جیسا کہ خود حضرت شعیب (علیہ السلام) اس پر عمل پیرا ہیں اور صاحب مال و تجارت ہیں ، کیونکہ وہ اس دعوت پر ان سے کسی ذاتی مفاد کے طلب گار نہیں ہیں اور نہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو اچھے طرز عمل کی تلقین کر کے خود برے اعمال پر عمل پیرا ہوں اور بازار کو خالی پا کر خود مفاد سمیٹ لیں ان کی دعوت تو ان لوگوں کے لیے اور عوام الناس سب کے لیے عام ہے اور اس میں ان کے لیے کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔ یہ محض ایک وہم ہے کہ معیشت میں اسلامی ہدایات کے نفاد سے شاید ان کو نقصان ہوگا۔