فلولا كانت قرية امنت فنفعها ايمانها الا قوم يونس لما امنوا كشفنا عنهم عذاب الخزي في الحياة الدنيا ومتعناهم الى حين ٩٨
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيمَـٰنُهَآ إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّآ ءَامَنُوا۟ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ ٱلْخِزْىِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَمَتَّعْنَـٰهُمْ إِلَىٰ حِينٍۢ ٩٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

فلولا کانت قریۃ امنت فنفعھا ایمانھا الا قوم یونس قوم یونس کے علاوہ کوئی اور ایسی بستی کیوں نہیں ہوئی کہ (مشاہدۂ عذاب کے بعد) وہ ایمان لائی ہو اور ایمان اس کیلئے مفید ہوا ہو۔ قریہ سے مراد ہیں قریہ والے ‘ یعنی ان بستیوں والے جن کو اللہ نے (تکذیب رسول کی سزا میں) تباہ کردیا۔ اٰمَنَتْ یعنی عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے ایمان لے آئی ہو اور فرعون کی طرح وقت موت پر ایمان کو نہ ٹالا ہو۔ ایمان کے مفید ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ نے ان کا ایمان قبول کرلیا ہو (اور آیا ہوا عذاب ٹال دیا ہو) ۔

حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ اپنے بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک غرغرہ نہ لگنے لگے۔ رواہ الترمذی وابن ماجہ وابن حبان والحاکم والبیہقی۔

حضرت ابو ذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ بلاشک اپنے بندہ کی مغفرت کردیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑجائے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! پردہ کیا۔ فرمایا : شرک کی حالت میں مرنا۔ رواہ احمد والبیہقی فی کتاب البعث والنشور

لَوْلا حرف تحضیض (ابھارنا ‘ برانگیختہ کرنا) ہے۔ اس کے اندر نفی کا معنی ہے ‘ اسلئے الاَّ قَوْمَ یُوْنُسَاستثناء متصل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قوم یونس مستثنیٰ ہے۔ وہ عذاب (دنیوی) کا مشاہدہ کرنے کے وقت ایمان لائی اور اس کو اس ایمان نے فائدہ پہنچایا (ا اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی) آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوگئی (لیکن قوم یونس غرغرہ کی حالت سے پہلے اور عذاب آخرت کے معائنہ سے قبل ایمان لائی تھی) ۔

لما امنوا جب وہ ایمان لے آئے ‘ یعنی اختیار کی حالت میں جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان کے ایمان کو قبول کرلیا۔ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ کی روایت سے رسول اللہ (ﷺ) کا یہ فرمان اس آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ جب وہ ایمان لے آئے تو انھوں نے دعا کی :

کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا اور ہم نے دنیوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے دور کردیا۔

ومتعنھم الی حین۔ اور ایک (معین مقرر) وقت تک (دنیا میں) ان کو بہرہ اندوز کردیا۔ مقرر وقت سے مراد وقت موت جس کا علم اللہ کو تھا۔ بغوی نے لکھا ہے : اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بستی ایسی نہیں ہوئی کہ عذاب کا مشاہدہ کرلینے کے بعد ایمان لائی ہو اور اس حالت میں اس کے ایمان نے اس کو فائدہ پہنچایا ہو ‘ سوائے قوم یونس کے۔ ان کو ایسے وقت میں ایمان لانے سے بھی فائدہ ہوا۔

اس جگہ علماء کے دو قول ہیں : ایک فریق کا قول ہے کہ قوم یونس نے عذاب کو آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیا تھا اور اس کے بعد ایمان لائے تھے۔ دوسرا فریق قائل ہے کہ عذاب کی علامت دیکھی تھی ‘ عذاب نہیں دیکھا تھا۔ اول قول اکثر اہل علم کا ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِاور عذاب کو دور کرنا وقوع کے بعد ہی ہوتا ہے۔

بغوی کے اس کلام کا مفاد یہ ہے کہ دنیوی عذاب آجانے کی حالت (جس کو بغوی نے حالت بأس کہا ہے) میں کسی کا ایمان قابل قبول نہیں۔ حالت بأس میں ایمان صرف قوم یونس کا قبول کیا گیا ‘ اس کے علاوہ کسی کا قبول نہیں کیا گیا۔

صحیح یہ ہے کہ آیت میں عذاب الیم سے وہ اخروی عذاب مراد ہے جو مرنے کے وقت ملائکۂ موت کی شکل میں مردہ کے سامنے آجاتا ہے۔ اس عذاب کو دیکھنے کے بعد ایمان لاناقابل قبول نہیں (دنیوی عذاب کو دیکھ کر ایمان لانا قابل قبول ہے) دیکھو ! بدر کے دن کافروں پر قتل و قید کی شکل میں دنیوی عذاب آیا اور اس جنگ سے جو کفار بچ گئے اور بعد کو ایمان لے آئے تو ان کا ایمان قبول بھی کیا گیا۔ قوم یونس کا بھی یہی حال ہوا۔ آخرت کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے وہ لوگ ایمان لے آئے باوجودیکہ دنیوی عذاب انہوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور دیکھنے کے بعد ایمان لائے تھے ‘ پھر بھی ان کا ایمان مقبول ہوا اور دنیوی زندگی میں رسوائی کا عذاب اللہ نے ان سے دور کردیا۔

رہا فرعون کے ایمان کا قبول نہ ہونا ‘ اس کی وجہ یا یہ تھی کہ وہ مرنے کے وقت غرغرہ کی حالت میں ایمان لایا تھا جو ناقابل قبول ہے ‘ یا یہ سبب تھا کہ زبان سے اس نے اگرچہ ایمان کا اظہار کیا تھا مگر (ا اللہ کو معلوم تھا کہ وہ) دل سے ایمان نہیں لایا تھا کیونکہ حضرت موسیٰ نے اس کیلئے بددعا کی تھی اور آپ کی بددعا قبول ہوئی تھی ‘ اسلئے فرعون دل سے ایمان لانے والا ہی نہ تھا۔ فرعون اور اس کی قوم کی عادت ہی ہوگئی تھی کہ جب ان پر کوئی عذاب پڑجاتا تھا تو کہتے تھے : موسیٰ ! اپنے رب سے اس عذاب کو ٹال دینے کی دعا کر دو ۔ اگر عذاب تم نے دور کرا دیا تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے دیں گے۔ لیکن جب اللہ عذاب کو ایک مدت مقرر کیلئے دور کردیتا تھا تو وہ عہد توڑ دیتے تھے اور وعدہ کے خلاف کرتے تھے۔ پس ممکن ہے کہ آخری مرتبہ بھی فرعون دل سے ایمان نہ لایا ہو ‘ صرف زبان سے اقرار کرلیا ہو۔

غرغرہ کی حالت میں ایمان قبول ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ سورة النساء کی آیت اِنَّمَا التَّوبَتَہ علی اللّٰہ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَھَالَۃٍ الخ کی تفسیر کے ذیل میں ہم نے بیان کردیا ہے۔

حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصّہ

بغوی نے حضرت ابن مسعود اور حضرت سعید بن جبیر اور وہب بن منبہ وغیرہ کی روایات سے حسب ذیل بیان کیا ہے۔

قوم یونس نینوا علاقۂ موصل کی رہنے والی تھی۔ اللہ نے ان کی ہدایت کیلئے حضرت یونس کو مامور فرمایا۔ حضرت یونس نے ان کو ایمان کی دعوت دی مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ کی طرف سے حضرت یونس کو حکم دیا گیا : ان سے کہہ دو کہ تین روز تک صبح کے وقت ان پر عذاب آئے گا۔ حضرت یونس نے اطلاع دے دی۔ قوم والوں نے کہا : تجربہ سے ثابت ہے کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولا ‘ اسلئے انتظار کرو اور دیکھو ! اگر یہ آج رات تمہارے ساتھ رہے تو سمجھ لو صبح کو کچھ نہیں ہوگا اور اگر رات کو تمہارے ساتھ نہ رہے تو سمجھ لو کہ صبح ........... کو عذاب ضرور آئے گا۔ وسط شب میں حضرت یونس قوم کے پاس سے باہر چلے گئے۔ صبح ہوئی تو لوگوں کے سروں سے ایک میل اوپر عذاب آگیا۔ وہب کا بیان ہے : عذاب ایک سیاہ گھٹا کی شکل میں سخت دھواں اڑاتا آگیا ‘ پھر نیچے اتر کر شہر پر چھا گیا جس سے گھروں کی چھتیں کالی ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو ہلاک ہوجانے کا یقین ہوگیا۔ حضرت یونس کو تلاش کیا تو ان کا بھی کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ کرنے کا خیال ڈال دیا اور بڑے ‘ بچے ‘ عورت ‘ مرد اور چوپائے سب شہر کے باہر میدان میں جمع ہوگئے۔ سبھوں نے کمبل کا (فقیرانہ) لباس پہن لیا اور لگے توبہ کرنے اور صحیح نیت کے ساتھ ایمان کا اظہار کرنے۔ ہر ماں کو بچے سے علیحدہ کردیا گیا تھا یہاں تک کہ چوپایوں کے بچے بھی ماؤں سے جدا کر دئیے گئے تھے۔ اس علیحدگی کی وجہ سے آدمیوں اور جانوروں کے بچوں نے چیخنا شروع کردیا ‘ مائیں بھی (جذبۂ محبت کے زیر اثر) چیخنے لگیں (ایک کہرام مچ گیا) بیتابی سے سب چیخ پڑے اور اللہ کے سامنے گڑگڑائے۔ آخر اللہ نے رحم فرمایا ‘ دعا قبول فرمائی اور چھایا ہوا عذاب دور کردیا۔ یہ واقعہ 10 محرم کا تھا۔

ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن المنذر اور ابو الشیخ نے قتادہ کا بیان نقل کیا ‘ قتادہ نے کہا : ہم سے کہا گیا کہ قوم یونس مقام نینوا علاقۂ موصل میں رہتی تھی۔ اس بیان میں اتنا زائد ہے کہ جب اللہ نے ان کے دلوں کی سچائی مشاہدہ فرما لی اور توبہ و ندامت جان لی تو عذاب دور کردیا حالانکہ عذاب ان کے سروں پر لٹک آیا تھا ‘ صرف ایک میل کا فاصلہ رہ گیا تھا۔

ابن ابی حاتم نے حضرت علی کا بیان نقل کیا ہے کہ قوم یونس کی توبہ عاشورہ کے دن قبول ہوئی تھی۔ حضرت یونس قوم کی بستی سے باہر چلے گئے اور عذاب نازل ہونے اور قوم کے ہلاک ہونے کا انتظار کرتے رہے ‘ لیکن جب آپ نے عذاب آتا نہ دیکھا (اس زمانہ کا قومی ضابطہ تھا کہ) اگر کوئی شخص بلاثبوت جھوٹ بولتا تھا تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا۔ حضرت یونس نے کہا : میں نے قوم سے جھوٹی بات کہی (یعنی میرا جھوٹ ثابت ہوگیا) اب کیسے ان کے پاس لوٹ کر جاسکتا ہوں۔ یہ خیال کر کے قوم سے ناراض اور اپنے رب سے کشیدہ ہو کر چل دئیے۔ دریا پر پہنچے تو کچھ لوگ کشتی میں سوار ہو رہے تھے۔ لوگوں نے پہچان لیا اور بلا کرایہ سوار کرلیا۔ کشتی جب آپ کو لے کر بیچ سمندر میں پہنچی تو رک گئی ‘ نہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔ کشتی والوں نے کہا : کشتی کے اڑ جانے کی کوئی خاص وجہ ہے۔ حضرت یونس نے کہا : مجھے اس کی وجہ معلوم ہے ‘ اس میں کوئی بڑا گناہگار سوار ہے۔ لوگوں نے کہا : وہ کون ہے ؟ حضرت یونس نے کہا : میں ہوں ‘ مجھے دریا میں پھینک دو ۔ لوگوں نے کہا : جب تک ہمارے نزدیک کوئی خاص وجہ نہ ہو ‘ ہم تو آپ کو پھینکنے والے نہیں۔ آخر قرعہ اندازی کی اور تین بار حضرت یونس ہی کا نام قرعہ میں نکلا۔ حضرت یونس نے فرمایا : یا تو تم مجھے پانی میں پھینک دو ورنہ سب ہلاک ہوجاؤ گے۔ مجبوراً کشتی والوں نے آپ کو پھینک دیا۔ پھینکتے ہی کشتی روانہ ہوگئی۔ کشتی کے نچلے حصہ کے پاس ایک مچھلی منہ کھولے اللہ کے حکم کی منتظر تھی۔ جونہی حضرت یونس پانی میں گرے ‘ مچھلی نے اپنے منہ میں لے لیا۔

یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے ایک بڑی مچھلی کو حکم دیا ‘ اس نے کشتی کی طرف رخ کیا۔ کشتی والوں نے جو اس کو منہ کھولے ہوئے کشتی کی طرف رخ کئے ہوئے دیکھا جو بڑے پہاڑ جیسی تھی تو انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کشتی کے اندر کسی کی جستجو کر رہی ہے۔ حضرت یونس نے یہ دیکھتے ہی پانی میں چھلانگ لگا دی (اور مچھلی نے ان کو پکڑ لیا) ۔

حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت یونس اپنی قوم سے ناراض ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بحر روم پر پہنچے۔ وہاں ایک کشتی مسافروں سے بھری کھڑی تھی۔ آپ اس میں سوار ہوگئے۔ جب کشتی روانہ ہو کر وسط میں پہنچی تو رک کر کھڑی ہوگئی۔ قریب تھا کہ سب لوگ ڈوب جائیں ‘ ملاح بولے : ہماری کشتی میں کوئی گناہگار آدمی یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کشتی اڑ گئی ہے۔ ہمارا طریقہ ہے کہ ایسے موقع پر قرعہ اندازی کرتے ہیں۔ جس کے نام پر قرعہ نکل آتا ہے ‘ اس کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں (کشتی چل نکلتی ہے) ایک آدمی کو ڈبو دینا تو پوری کشتی کے مع سواریوں کے ڈوب جانے سے بہتر ہوتا ہے۔ چناچہ لوگوں نے تین بار قرعہ ڈالا ‘ ہر بار حضرت یونس کے نام پر نکلا۔ حضرت یونس فوراً کھڑے ہوئے اور بولے : میں ہی گناہگار آدمی اور بھاگا ہوا غلام ہوں۔ اس کے بعد آپ نے خود اپنے کو پانی میں پھینک دیا۔ فوراً ایک مچھلی نے نگل لیا ‘ پھر اس مچھلی سے بڑی مچھلی نے آکر اس مچھلی کو نگل لیا۔ اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس کو بال برابر تکلیف نہ ہونے پائے۔ میں نے تیرے پیٹ کو اس کیلئے قید خانہ بنایا ہے ‘ اس کو تیری غذا نہیں بنایا۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ مچھلی کو ندا دی گئی کہ ہم نے یونس کو تیری روزی نہیں بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کی حفاظت کا مقام اور عبادت خانہ بنایا ہے۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ قرعہ ڈالنے سے پہلے ہی حضرت یونس کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں ہی گنہگار ‘ بھاگا ہوا غلام ہوں۔ کشتی والوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ فرمایا : یونس بن متی۔ لوگ پہچان گئے اور بولے : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کو نہیں پھینکیں گے بلکہ قرعہ اندازی کریں گے۔ قرعہ اندازی کی گئی اور حضرت یونس کے نام کا قرعہ نکل آیا اور آپ نے خود اپنے آپ کو پانی میں پھینک دیا۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : جس مچھلی نے آپ کو نگلا تھا ‘ وہ آپ کو ساتویں زمین کی گہرائی میں لے گئی اور چالیس رات تک آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ وہاں آپ نے سنگریزوں کے تسبیح کرنے کی آواز سنی تو تاریکیوں میں ہی پکار اٹھے : لاَ اِلٰہَ الاَّ اَنْتَ سُبْحْانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور بحکم خداوندی مچھلی نے لا کر آپ کو سمندر کے کنارے پھینک دیا۔ اس وقت آپ کی ہیئت ایسی تھی جیسے پرو بال نوچا ہو اچوزہ۔ اللہ نے فوراً کدو کا درخت پیدا کردیا جس کے سایہ میں آپ نے آرام لیا اور ایک پہاڑی بکری یا پاڑی کو مامور کردیا ‘ آپ اس کا دودھ پیتے رہے۔ جب درخت سوکھ گیا تو آپ درخت پر رو دئیے۔ اللہ نے وحی بھیجی : تو ایک درخت کے خشک ہوجانے پر تو رو دیا اور ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں پر نہیں رویا اور ان کو ہلاک کروا دینا چاہا۔ یہاں سے حضرت یونس چل دئیے اور ایک غلام سے ملاقات ہوئی جو جانور چرا رہا تھا ‘ اس سے پوچھا : غلام ! تو کون ہے ؟ اس نے کہا : یونس کی قوم کا ہوں۔ حضرت نے فرمایا : جب تو اپنی قوم والوں سے جا کر ملے تو ان سے کہہ دینا کہ میری ملاقات یونس سے ہوئی تھی۔ غلام نے کہا : آپ واقف ہیں کہ اگر میرے پاس گواہ نہ ہوں گے تو (مجھے جھوٹی اطلاع دینے پر) قتل کردیا جائے گا۔ حضرت یونس نے فرمایا : یہ زمین کا ٹکڑا اور یہ درخت تیری گواہی دے گا۔ غلام نے کہا : تو شہادت دینے کا ان کو حکم دے دیجئے۔ حضرت یونس نے فرمایا : جب یہ غلام تمہارے پاس آئے تو تم دونوں اس کی گواہی دینا۔ زمین اور درخت نے کہا : بہت اچھا۔ اس غلام نے جا کر اپنے بادشاہ کو اطلاع دے دی کہ حضرت یونس سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ بادشاہ نے غلام کو قتل کردینے کا حکم دے دیا۔ غلام نے کہا : میرے پاس (اس بات کی سچائی کے) گواہ ہیں ‘ میرے ساتھ کسی کو بھیجو۔ غرض غلام لوگوں کو ساتھ لے کر اس جگہ اور اس درخت کے پاس پہنچا اور کہا : میں تم دونوں کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت یونس نے تم دونوں کو گواہ بنایا تھا ؟ دونوں نے کہا : ہاں۔ یہ سنتے ہی لوگ خوفزدہ ہو کر لوٹ آئے اور بادشاہ سے آ کر کہہ دیا کہ درخت اور زمین نے اس غلام کی گواہی دی۔ بادشاہ نے غلام کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنی جگہ بٹھا دیا اور کہا : تو اس جگہ کا مجھ سے زیادہ حقدار ہے۔ غلام نے ان لوگوں کا انتظام چالیس سال تک کیا۔