قریش کے سرداروں نے پیغمبر کے خلاف اپنی دشمنانہ حرکتوں سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیا تھا اور اس قابل بنا لیا تھا کہ ان سے جنگ کی جائے۔ مگر ایک عظیم تر مصلحت کی خاطر ان سے جنگ کے بجائے صلح کرلی گئی۔ وہ مصلحت یہ تھی کہ اس وقت قریش کی جماعت میں بہت سے دوسرے لوگ بھی تھے جو یا تو اپنے دل میں شرک سے تائب ہو کر توحید پر ایمان لاچکے تھے یا ایسے لوگ تھے جن کی صالحیت کی بنا پر یقینی تھا کہ حالات کے معتدل ہوتے ہی وہ اسلام قبول کرلیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان جنگ نہ ہونے دی۔ تاکہ وہ لوگ مومن بن کر دنیا میں اپنا اسلامی حصہ ادا کریں۔ اور آخرت میں خدا کا انعام حاصل کریں۔ اللہ کی نظر میں ہر دوسری مصلحت کے مقابلہ میں دعوت کی مصلحت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔