اولم یروا ۔۔۔۔۔ کل شیء قدیر (46 : 33) “ اور کیا ان لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کئے اور ان کو بناتے ہوئے وہ نہ تھکا ، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو جلا اٹھائے ؟ کیوں نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے ”۔ یہ ایک طرح توجہ دلانا ہے اس کائنات کی کھلی کتاب کے مطالعہ کی طرف ، جس کا تذکرہ سورت کے آغاز میں بھی ہوا تھا۔ بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک نکتہ قرآن مجید میں براہ راست بھی ہوتا ہے۔ پھر وہی بات ایک قصے میں بھی آجاتی ہے ، اس طرح بتا دیا جاتا ہے کہ یہ قصہ اس لیے لایا گیا اور سیاق کلام میں مناسبت آجاتی ہے۔
یہ کتاب پہلے تو یہ بتاتی ہے کہ یہ عظیم کائنات ، جس کے تصور سے سر چکرا جاتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی۔۔۔۔ یہ آسمان اور زمین اور ان کے اندر رنگا رنگ مخلوقات جو دیکھتے ہی بتا دیتی ہیں کہ اللہ کے لئے تمام مخلوقات کو دوبارہ پیدا کردینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی یہ کائنات اسکیم یہ بتاتی ہے کہ دوبارہ حشر ہوگا۔ اور یہاں بات کو بطور استفہام لانے سے تاکید مزید ہوجاتی ہے اور استفہام کا جواب ہاں میں ہے۔ اس لیے آخر میں یہ فقرہ آتا ہے۔
انہ علی کل شیء قدیر (46 : 33) ” یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے “۔ لہٰذا اللہ دوسری قدرتوں کے ساتھ تمام مخلوقات کو دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ اور آخر میں دوبارہ اٹھائے جانے کے اصل مقصد کو نہایت ہی مشخص انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ حساب و کتاب یوں ہوگا۔