Estás leyendo un tafsir para el grupo de versículos 34:20 hasta 34:21
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ولقد صدق علیھم۔۔۔۔۔۔۔ کل شئ حفیظ (20 – 21) یہ قوم ، اس راستے پر چل کر اس کا یہ انجام کیوں ہوا ؟ اس لیے کہ ابلیس نے اپنی منصوبہ بندی کو درست پایا اور وہ ان کو گمراہ کرنے میں کامیاب رہا۔ ہاں اہل ایمان کو وہ گمراہ نہ کرسکا ، مومنین کے گروہ کو وہ گمراہ نہ کرسکا “۔ کیونکہ ہر گمراہ سوسائٹی میں لوگوں کی ایک قلیل تعداد ایسی رہ جاتی ہے جو گمراہ ہونے سے انکار کردیتی ہے اور یہ قلیل گروہ مومنین اس بات کا گواہ ہوتا ہے کہ سچائی اپنی جگی قائم ہوتی ہے۔ صرف اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی سچائی کا طالب ہو۔ اگر کوئی طالب ہو تو سچائی مل جاتی ہے۔ بدترین حالات میں بھی سچائی قائم رہتی ہے۔ جہاں تک ابلیس کا تعلق ہے لوگوں کے اوپر اس کو کوئی جابرانہ اقتدار حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کو مجبور کرکے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان ہر حال میں لوگوں پر مسلط ہوتا ہے۔ اب لوگوں میں سے بعض حق پر ثابت قدم ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ حق کے طالب ہی نہیں ہوتے۔ وہ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ پھر عالم واقعہ میں یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ مومن کون ہے اور مومن کو اس کا ایمان برے راستے سے بچاتا ہے۔

ممن ھو منھا فی شک (34: 21) ” اس سے جو آخرت سے شک میں ہوتا ہے “۔ جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ بچ جاتا ہے اور جو آخرت کے بارے میں شک کرتا ہے وہ شیطان کی گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ کو تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سیدھی راہ لے گا اور کون غلط لے گا لیکن اللہ اللہ تعالیٰ فیصلوں کو تب صادر کرتا ہے جب وہ عملاً صادر ہوجاتے ہیں۔

اس وسیع میدان میں یعنی اللہ کی تدبیر اور تقدیر کے وسیع میدان میں شیطان کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ کسی کو مجبور کیے بغیر لوگوں مسلط ہوجائے اور ان نتائج کو ظاہر کر دے جو پہلے سے اللہ کے علم میں تھے۔ اس میدان میں قصہ سبا دراصل تمام اقوام عالم کا قصہ ہے۔ اقوام کے عروج وزوال کی داستان وہی ہے جو سبا کی ہے۔ اس لیے اس آیت کے دائرہ اطلاق کو وسیع کردیا جاتا ہے۔ یہ اصول قوم سبا تک محدود نہیں رہتا۔ تمام انسانوں کے اچھے اور برے حالات اسی اصول کے تحت آتے جاتے ہیں۔ لوگوں کا ہدایت پانا اور گمراہ ہونا اسباب ہدایت اور اسباب ضلالت اختیار کرنے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔

وربک علیٰ کل شئ حفیظ (34: 21) ” اور تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے “۔ اس سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی ، کوئی چیز نظام تخلیق میں مہمل نہیں ہوتی اور نہ بےکار ہوتی ہے “۔