يا بني انها ان تك مثقال حبة من خردل فتكن في صخرة او في السماوات او في الارض يات بها الله ان الله لطيف خبير ١٦
يَـٰبُنَىَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍۢ مِّنْ خَرْدَلٍۢ فَتَكُن فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ أَوْ فِى ٱلْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌۭ ١٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یبنی انھا ان ۔۔۔۔۔ ان اللہ لطیف خبیر (16)

اگر کوئی اللہ کے علم کی جامعیت اور مانعیت کو محض اصولی الفاظ میں بیان کر دے اور اللہ کو بہت قدرتوں والا کہہ دے اور یہ کہ اسے ذرے ذرے کا حساب لینا والا کہہ دے تو وہ اس قدر موثر نہیں ہوسکتا جس طرح یہ مصور انداز تعبیر موثر اور دلنشین ہے یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز تعبیز ہے کہ نہایت معنوی اور ذہنی امور کو مصور کردیا جاتا ہے۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر النبی) ۔ رائی کا دانہ بہت ہی چھوٹا ، گم گشتہ ، بےحقیقت اور بےوزن ہوتا ہے۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ پھر یہ دانہ کسی چٹان (مخرہ) میں ہو کہ وہاں تک پہنچنے کی کوئی راہ بھی نہ ہو یا وہ سماوات میں ہو ، جن کی دوریوں کے تصور ہی سے سر چکرا جاتا ہے ، جن کے اندر بڑے بڑے عظیم الجثہ کر ات کے وزن تیر رہے ہیں یا اس زمین کے اندر وہ رائی کے دانہ کہیں غبار میں پڑا ہوا تو اسے بھی ڈھونڈ لائے گا۔ پس ذرا تصور کرلو اس کے علم وقدرت کے بارے میں۔ وہ بہت ہی باریک بیں ہے۔

یات بھا اللہ ان اللہ لطیف خبیر (31: 16) اس مضمون کے ساتھ لطیف کا لفظ بہت ہی موزوں ہے۔ اور خیال اس ہولناک ، عظیم اور وسیع و عریض کائنات کی وادیوں میں اس رائی کے دانے کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہا ہے اور یہ اللہ کے علم اور قدرت کے تصویر پر احاطہ کرنے سے عاجز رہ جاتا ہے ، اس لیے وہ اللہ کی طرف مڑ کر اپنی عاجزی کا اقرار کرتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ اللہ ہر خفیہ بات کا جاننے والا ہے اور وہ بات ذہن نشین ہوجاتی ہے جسے پورا قرآن انسان کے ذہن میں بٹھانے کے درپے ہے کہ ” وہ “ دیکھ رہا ہے۔ نہایت ہی بہترین انداز میں اور دلنشیں اسلوب ہیں۔ حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت جاری رکھے ہوتے ہیں۔ اللہ پر پختہ ایمان لانے اور دل سے ہر قسم کے شرک کا شائبہ تک دور کرنے اور عقیدہ آخرت ثابت کرنے اور اسلامی نظریہ حیات دل میں بٹھانے کے بعد اب وہ اسلامی عقیدے کے تقاضے سامنے لاتے ہیں ، وہ تقاضے یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لیے نماز پڑھیں ، یہ معراج المومنین ہے۔ لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھنے کیلئے ان کو اسلام کی دعوت دیں۔ جو بھی دعوت دیتا ہے اسے مشکلات پیش آتی ہیں ، اس لیے مشکلات پر صبر کرو۔